ہم سدا کے آوارہ گرد بنا میر محفل سے پوچھے کہ وہ خود دوبئی پہنچے بھی ہیں یا ابھی نندن معزرت ابھی لندن میں ہی ہیں، ابوظہبی سے دوبئی سوئے یار روانہ ہو گئے۔ مقام مطلوب پر ہم قریب ساڑھے پانچ پہنچے سکول کی سیکورٹی سے راہ و رسم بڑھانے کے بعد اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مکالماتی ھال میں پہنچ کر ہاتھوں پیروں کے طوطے چڑیا سب اڑ گئے کہ ایک پروجیکٹر، اور بیٹھنے کا انتظام سمیت کرسیوں کے پورا تھا مگر ویرانی سے کوئی ویرانی تھی۔ ہم نے سب سے پہلے اپنی سیاسی قیادت کی کرسیوں کو شمار کرنے والی عادت پوری کی اور شماریات کرسیاں کا فریضہ نبھایا جو کہ کم و بیش سو کے قریب تھیں۔ چشم نیک سے بغور دیکھا تو ہر میز پر پانی اور جوس کو موجود پا کر یک گونہ اطمینان ہوا کہ کوئی آوے نہ آوے لنگر کا انتظام یہاں بہرحال برابر ہے۔
← مزید پڑھیے