وطن عزیز میں ہر سال باوجود اسکے کہ بیشمار قربانیاں بڑی عید کے موقعے پر کی جاتی ہیں مگر قومی مجرد حضرت شیخ رشید پیشن گوئیاں والے کی ایک مخصوص قربانی کی خواہش ادھوری رہ جایا کرتی تھی اور وہ “قصائی بھاگ گیا ” کا نعرہ لگا کر اگلی عید تک اپنے مطلوبہ بکرے کی قربانی کا انتظار فرمایا کرتے – یہ پنڈی کی کرامت تھی یا کہ شیخ کے مسلسل ورود ہائے قربانی کا نتیجہ کہ اس عید سے پہلے واقعتاً انکا مطلوبہ بکرا قربان کر دیا گیا – اس بار بکرے اور قصائی کو ایک اکھاڑے میں چھوڑا گیا اور خوب مڈ بھیڑ کا مزہ لینے کے لئے کوتوال نے اکھاڑے کا دروازہ بند کر دیا تاکہ بکرا یا قصائی کوئی ایک تو قربان ہووے ہی ہووے – اس قربانی میں شیخ صاحب کا کام فقط تکبیر پڑھنے کا تھا جو وہ مسلسل پڑھتے رھے – وطن عزیز میں بکرا منڈی سننے میں تو یہ آیا کہ کراچی شہر میں لگتی ہے مگر مخبر صادق نہیں شاید ورنہ وہ مصدقہ اطلاع عوام کو ضرور دیتا کہ بکروں کی اصل منڈی جڑواں شہروں میں لگتی ہے چونکہ قصائی قریب ہے تو بکروں کی قربانی قدرے آسان رہتی ہے جب جی چاہا ایک آدھ بکرے کو لما لٹا کر شیخ رشید و دیگر سے تکبیر کہلوا کر چھری پھیر دی اور یوں دامن پہ کوئی دھبہ نہ ہاتھ پر کوئی چھینٹ والا معاملہ ہو جاتا –
بعضے بکرے نہایت پھسڈی واقع ہوئے ہوتے ہیں اور گردن ہاتھ میں آنے نہیں دے رھے ہوتے اس کے لیے کوتوال نے سلیمانی رسیاں تیار کر رکھی ہیں جو اور تو کسی کو نظر نہیں آتیں مگر جس پھسڈی بکرے کو گرانے کے لیے اسکی ٹانگوں میں ڈالی جاتی ہیں اسکو خوب خبر ہوتی کہ اب گرے ہی گرے – کئی بکرے کچھ وقت کے لیے اپنی قربانی اس لیے موخر کروا لیتے ہیں کہ انکی شریفانہ و مسکینانہ عادات و اطوار دیکھ کر کوتوال قصائی کو انکی قربانی بعد میں کسی لمھے کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ زیادہ پھدکنے والے بکروں کو ترجیحا پہلے قربان کر کے راوی اور قصائی دونوں سکھ کا سانس لیں – سکھ کے سانس سے یاد آیا ایک دفعہ کراچی جا رہا تھا تو بس ڈرائیور کو شدید کھانسی آرہی تھی اور کھانس کھانس کر جب تک گیا تو بس کنڈکٹر کو کہتا ہے “اوے مینوں اک سگریٹ لوا کوئی سکھ دا ساہ تے آوے” ایسے ہی کوتوال و قصائی دیگر شغل ہائے زیست سے تھک جاتے ہیں تو ایک آواز لگاتے ہیں کہ “اوے اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر میں سے کوئی پلا پلایا ایسا بکرا قربان کرو جو اپنی رسیاں اب تڑوانے کی کوشش کر رہا ھے” – مگر وہ بکرا قربان فقط باڑے کے کوتوال کی مرضی سے نہیں قربان نہیں ہوتا اس میں اسکے اس پاس دیگر بکروں کی مرضی شامل اور مدد شامل حال رہتی جیسے کہ وہ مل ملا کر اس پھسڈی بکرے کو اپنے سینگوں پر دھکیلتے ہوئے قربان گاہ تک پہنچانے میں کوتوال و قصائی کی مدد کرتے ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب فقط یہ آخری قربانی ہوگی اور ان کی اپنی باری کبھی نہیں آئے گی – لیکن انکی یہ خام خیالی دوسری نئیں تو تیسری عید آنے پر دور ہو جاتی جب وہ آواز سن لیتے ہیں کہ “اوے مینو سگریٹ لوا سکھ دا ساہ تے اوے” – اسی ترتیب سے بیشمار بکروں کی قربانی دی یا لی جا چکی ہے مگر قبولیت کا درجہ پا کر نہیں دے رہی – بارہا ایسا بھی ہوا کہ باڑے کے کوتوال نے وڈے بکروں کو لمی رسیاں ڈال کر باندھ دیا مگر اتنی رسی لمی ضرور رکھی تاکہ بکرے وقتا فوقتاً تفریح کوتوال کے واسطے آپس میں سینگ ضرور پھنسا رکھیں جسکو بکرے اپنی خود مختاری پر محمول فرماتے ہیں –
بعض بکرے اصلا اس باڑے کے نہیں ہوتے البتہ کوتوال انکو اس باڑے میں داخل فرما دیتا ہے اور یہ کوتوالی بکرے ایک نظر باڑے میں موجود بکروں پر رکھتے اور ایک نظر باہر کھڑے کوتوال پر رکھتے کہ وہ اشارہ دے تو ہم باڑے کے بکروں سے الگ ہو جائیں – کئی بکرے مزاجا ٹکریں مارنے والے ہوتے ہیں تو کوتوال ان بکروں کی کوتوالی پر اتنی کوتوالیاں کرتا ہے کہ بکرے کی جان پر بن آتی ہے اور آخر کر وہ سیدھا ہو کر بہ فرمایش کوتوال چلنے لگتا ہے جیسا کہ آجکل ایک بکرا تازہ تازہ راہ راست پر آیا ھے – اس دفعہ ہونے والی قربانی پر پیچھے بچ جانے والے بکرے شاداں و فرحاں ہیں کہ وڈے سینگھ پھسانے والا بکرا ہوا قربان اور ہماری جان میں آئی جان مگر اے بکرو کوتوال نے اگر پھر قربانی کی آواز لگا دی تو فیر اگلا نمبر؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں