آتے ہیں غیب سے سوال خیال میں۔۔عظمت نواز

سوشل میڈیا پر ہمہ قسم صاحبان علم اپنی عادت متواترہ سے مجبور علمی رائتہ نہایت خشوع و خضوع سے پھیلاتے ہیں ۔ گو یہ ہماری قومی عادات میں سے عادت صحیحہ ہے کہ ہم علمی خدمت میں ہرگز پیچھے نہیں رہنا چاہتے، وہاں کسی بات کی خبر ہمارے گوش گزار ہوئی یہاں ہم نے اس کو امت کی بھلائی کے لیے جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دیا ۔ خیر یہ بات پھر بھی قابل قبول ہے ۔

مگر آج جو بات پیشِ  نظر ہے وہ ہے ایک عدد فقرہ یا اس سے ملتے جلتے فقرے ،جو ہم ہر تیسری دیوار جواب کنندگان پر پڑھتے ہیں مثلاً ” کچھ احباب نے سوال کیا، کچھ دوستوں نے بہت اصرار کیا، کھوپچہ سوالات سے بھر گیا، قارئین نے کسی خصوصی جاری معاملے پر لکھنے کی استدعا کی، وقت کی کمی مگر احباب کے سوالات تھے تو لکھنا پڑ رہا  ہے ” اور ایسی دیگر سطور ہمیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔۔۔

اس پر ہم ان لوگوں کی رائے سے زیادہ یہ جاننے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ آخر اس عالم و فاضل ( ہر دو معنی میں فاضل) کو سوالات کہاں بھیجے، کس نے بھیجنے، کب بھیجے، اور سوالات تھے کیا؟

لیکن اس کا ہمیں کبھی تسلی بخش جواب نہ مل سکا اور نہ ہی ان صاحب الرائے شخصیات نے کبھی زحمت کی کہ وہ قیمتی و پوشیدہ سوالات( یعنی ہے جواب کھلا اور سوال پوشیدہ) بھی قارئین کی بھلائی کے لیے دکھا دیے جائیں، کہ کب آئے ،کس نے بھیجے اور کس موضوع سے متعلق تھے، پر شاید ایسے لکھنے والے دوست ہم ایسے مینگومینز کو وہ گھمبیر سوالات دکھا کر ذہنی الجھن و تناؤ سے بچائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ قاری کی توانائی بجائے سوالات کے سیدھے آنجناب کی جانب سے مرحمت کردہ جوابات پر ہی خرچ ہو تو اسی میں قوم کی بھلائی ہے، یعنی جواب کی حرمت کا سوال ہے ۔ ہمارے ناقص خیال میں در اصل ایسے دوستان حق شدید خود بیں و خود رو واقع ہوئے ہوتے ہیں اور مشاہدہ حق سے پہلے اپنی ذات والا صفات کے بارے مشاہدہ و مجاہدہ کے بعد الٹے پھر آتے ہیں اور پھر وہ خود کو خواہ مخواہ اس مرتبے پر فائز محسوس فرماتے ہیں کہ جہاں وہ جملہ موضوعات پر اتھارٹی سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔انہیں یہ اپنی قومی ذمہ واری لگنے لگتی  ہے کہ کسی بھی حالیہ یا گزشتہ معاملے پر قوم کی درست علمی رہنمائی نہ فرما سکے تو اس سے امت کا سرا سر گھاٹا ہے اور یوں بھی درون خانہ انکا علم چین سے بیٹھنے نہ دے گا ۔ جب کہ من ہی من میں غیر موجود سوال کنندوں کو داد عقل دیتے نہیں تھکتے کہ  کس طرح انہوں نے اس موضوع پر سوال داغنے کے لیے ان جیسا عبقری تلاش کر کے جان جوکھم میں ڈال کر نہایت دقیق سوالات کر کے قبلہ گاہی کو علمی موتی بکھیرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔

اب ہوا یہ کہ بقول شاعر ” گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن” یعنی ہمارے آس پاس ہردوسری ہستی کے ہاں بیشمار عدم موجود سوالات کے تسلی بخش جوابات دیکھ دیکھ کر ہم نے بھی خود کو ذرا علمی علمی محسوس فرمانا شروع کر دیا کہ ہو نہ ہو ہم بھی اسی قبیل سے ہیں بس ذرا خود بینی میں کمزور ٹھہرے ،تو یہ احساس قدرے دیر سے جاگا ،مگر جاگا ضرور۔اب ہمیں بھی ایسے متلاشیان حق کی جستجو ہونے لگی کہ جن کے سوالات سے ہم اپنے علم کے چنیدہ موتی جوابات کے ذریعے بکھیرےاور ویسے بھی کئی جگہوں پر سوالات کے بنا ان کے جوابات کی بھرمار سے ہمیں یہ احساس جاں گزیں ہو چلا تھا کہ سوال کنندہ ایک ڈھونڈیں گے  اور ہزار ملیں گے ،مگر ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا ۔

اسکے بعد جب ہمارے علم کی بیکراں وسعتوں نے ہمیں احساس جرم میں مبتلا کرنا شروع کر دیا کہ اس علم کو قومی مفاد میں اگر پھیلا نہیں رہے تو تم مجرم ہو اور ہم اس مخمصے میں تھے کہ جیسے دیگر جوابات مرحمت کرنے والوں کو خاطر خواہ سوالات کرنے والے میسر ہوتے بھلے وہ ہمیں نظر نہیں آتے مگر صاحبان نظر کو وہ نظر آتے ہونے تو شاید ہمیں بھی مل ہی جائیں گے دو چار لیکن ہم تو مرشد غالب کے اس شعر کی سراپا سوالیہ تصویر بن کر رہ گئے ” کاش کوئی سوال پوچھو ، کہ منہ میں جواب ہم بھی رکھتے ہیں” لیکن کوئی ایسا نابغہ ہمیں مل کر نہ دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر آخری حربے کے طور پر ہم نے اپنے تئیں کم علم، کم فہم دوستوں کی تلاش شروع کی کہ شاید انکے ہاں علم کی تھوڑ ہو اور وہ کسی علمی آدمی کی آمد کے منتظر ہوں مگر تاحال ہمیں ایسا ایک بھی شخص نظر نہیں آیا کہ جسکے پاس کوئی سوال ہو جبکہ جواب کم و بیش سبھی کے پاس وافر تعداد میں موجود ہیں۔ جب کسی سے باتوں باتوں میں انکی علمی رہنمائی فرمانے کی کوشش کرتے ہیں اور اشارتا ًیہ چاہتے ہیں کہ وہ کوئی سوال داغے تو انکے ہاں سے کم و بیش یہی تاثر ملتا کہ بیٹھے رہو تصور سوال کیے ہوئے کیونکہ وہ جتنے سوالات کے جواب دیگر علمی لوگ مرحمت فرماتے وہ سب انکو غیب سے ہی موصول ہوتے ہیں تمھیں بھی کسی کو روز یقیناً مل ہی جائے گا۔۔۔ سوال!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply