روزے داروں اور روزے خوروں کی اقسام

ہماری مسلمانی کے چرچے چہار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ من حیث القوم ہماری حرکات جلیبی کی طرح سیدھی ہیں۔ ایسے چند معاملات رمضان المبارک میں دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں روزہ دار و روزہ خور مختلف فنکاریاں کرتے نظر آتے ہیں.۔آئیے پہلے روزہ دار حضرات سے فیض حاصل کرتے ہیں.۔

Advertisements
julia rana solicitors

قسم نمبر 1۔ رمضان کی آمد پر جو خواتین و حضرات فوری طور پر اپنا حلیہ تبدیل کر لیتے ہیں،خاتون فوری طور پر دو عدد مصلے منگوا کر رکھ لیتی ہیں تاکہ ان پر بیٹھ کر دوسروں کو تسلی سے لمبے لمبے کوسنے دے سکیں اور جھولی پھیلا پھیلا کر فلانی بنت فلانی کا قلع قمع کرنے کی مناجات کر سکیں ۔مصلے کے علاوہ وہ کہیں بھی ہوں انکے لبوں سے جو کہ ذکر اذکار میں مشغول ہوتے ہیں ایک سیٹی نما آواز برآمد ہوتی رہتی ہے تاکہ انکے ذکر اذکار کی خبر پڑوس سے آئی خاتون تک جاتی رہے اور سند رہے کہ تم بھی دلدار ہو پر روزے دار ہم بھی ہیں۔
قسم نمبر 2۔کچھ مرد حضرات کار جہاں سے رمضان میں جلد فرصت مل جانے پر شاداں و فرحاں سوئے خانہ روانہ ہوتے ہیں اور روزے منہ کچھ دیر قیلولے کے منصوبے بناتے خراماں چلتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں تو انکی نیک پروین لیڈیاں سر پر دوپٹے کمانڈو سٹائل میں باندھے منجی پر دراز ہوتی ہیں کہ سرتاج روزہ لگا ہوا ہے آپ افطار کا سامان باہر سے لے آئیں۔کچھ حضرات و لیڈیوں نے روزہ اس واسطے رکھنا ہوتا ہےتاکہ باقی جان سکیں کہ ان روزے داروں کا روزہ ہے انہاں نوں نہ چھیڑا جائے ورنہ کاٹ کھائیں گے کیونکہ روزے میں لوکاٹ تو کھانے سے رہے۔
قسم نمبر 3۔ یہ وہ حضرات و حضراتنیاں ہوتے ہیں جو پورے سال کی بجائے اسی ایک مہینے میں ساری شریعت ایمرجنسی طور پر خود پر نافذ کر لیتے ہیں تاکہ بقایا گیارہ ماہ کا کھاتا گول کیا جا سکے – اسکے اجزائے ترکیبی میں سر پر ہمہ وقت دوپٹہ و ٹوپی کا انتظام کیے رکھنا، ہفتہ دس دن کے وقفے سے داڑھی منڈھوا لینا، خواتین کو نیل پالش کے غیر اسلامی ہونے کا احساس ہونا،دیگر چند جائز کارہائے حیات سے پرہیز کو تقوے میں بڑھوتری کا سبب جاننا، اسلامی چینلز کو ٹی وی پر سیٹ کرنا، بیہودہ گھٹیا گندے برے چینلز کو فوری طور پر گھر نکالا دینا، وغیرہ جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔
روزہ خوروں کی اقسام۔
وہ جینٹس اور لیڈیاں جو دفتر و گھر میں بار بار روزے کی افادیت پر زور دیتے دکھائی دیں وہ اکثر دوسروں کے بارے متفکرطبیعت پانے کی وجہ سے ایسی بات کرتے پائے جاتے ہیں ورنہ خود انکا روزہ کسی نہ کسی عذر کی نذر ہوا رہتا ہے تاکہ وہ دوسروں پر نظر رکھ سکیں۔
ایک اور قسم بھی ہے یعنی جو کسی منطق کی رو سے بھی روزہ خوری کر لیتے ہیں جیسا کہ ہمارے ایک آشنا تھے( خدا انہیں غریق رحمت کرے بھری جوانی میں وفات پا گئے )قبلہ شاہ صاحب، وہ بھی روزے سے پرہیز کرتے تھے تو ایک دفعہ کسی دوست نے اسی بابت استفسار کیا کہ کچھ وجہ روزہ خوری ہی بتلا دیجیے۔ مرحوم نے فرمایا کہ “سفر میں روزہ معاف ہے اور چونکہ زندگی بھی ایک سفر مسلسل ہے تو بس اسی سفر کے کارن ہم روزے کو سفری عذر کے پیش نظر ترک رکھتے ہیں” ایسی ہی ڈھیر ساری دیگر وجوہات بھی روزہ خوروں کو دستیاب رہتی ہیں –
سنتے ہیں کہ ریاستی سطح پر بھی روزہ خوروں کی سر کوبی کے لیے کوئی “قنون” بنایا گیا ہے تاکہ بزور شمشیر کوئی دو چار روزہ خور روزہ دار بنا کر ثواب دارین حاصل کیا جائے – اس بات سے مجھے کالج کے انگریزی کے استاد غلام فرید صاحب یاد آگئے وہ روایتی ملائیت سے سخت چڑتے تھے – ایک دفعہ کہیں ہمارے تبلیغی بھائی چلتے پھرتے دوران گشت انکے کسی محلے دار کی معیت میں جا پہنچے اور مختصر دعوت نماز مسجد میں آکر ادا کرنے کی ابھی تمہید باندھ رہے تھے تو ہمارے استاد محترم جھٹ سے بولے “بھائی میں تو عیسائی ہوں” اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی – تو اسی طرح اگر بزور قنون کسی روزہ خور کو کسی جا دوران کھانچہ اگر دھر لیا اور اس نے پلٹ کر جواب کچھ استاد محترم والا دے دیا یعنی کہ “بھائی میں تو عیسائی ہوں”تو پھر یاران نکتہ دان اس سے کوئی ثبوت مانگیں گے یا اسکی جان خلاصی کرتے ہوئے رحم کی اپیل قبول کر لیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply