احوال مکالمہ دوبئی ۔۔۔ عظمت نواز

 

تھی خبر گرم کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے اور سچ مچ تماشا ہوا۔ دی چیف لندنوی تشریف لا رھے تھے کہ معاذ صاحب نے ایک مکالماتی اکٹھ کی خبر دی جس کا انتظام دوبئی کی شہری آبادی سے نکل کر قدرے دور کے مقام پر رکھا گیا ہے۔ وقت کی پابندی کا مضمون ہم من حیث القوم بچپن سے پڑھتے آئے ہیں مگر اس پر عمل درآمد کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف رہا ہے اور بروز ہفتہ بھی کچھ ایسی گھٹنا ہوئی۔ ایک سکول کے ھال میں مقررہ وقت شام چھ سے نو بجے کا طے کر لیا گیا جس کا سہرا مکالمہ کے لکھاری ضیاء بھائی کے سر جاتا ہے۔

ہم سدا کے آوارہ گرد بنا میر محفل سے پوچھے کہ وہ خود دوبئی پہنچے بھی ہیں یا ابھی نندن معزرت ابھی لندن میں ہی ہیں، ابوظہبی سے دوبئی سوئے یار روانہ ہو گئے۔ مقام مطلوب پر ہم قریب ساڑھے پانچ پہنچے سکول کی سیکورٹی سے راہ و رسم بڑھانے کے بعد اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مکالماتی ھال میں پہنچ کر ہاتھوں پیروں کے طوطے چڑیا سب اڑ گئے کہ ایک پروجیکٹر، اور بیٹھنے کا انتظام سمیت کرسیوں کے پورا تھا مگر ویرانی سے کوئی ویرانی تھی۔ ہم نے سب سے پہلے اپنی سیاسی قیادت کی کرسیوں کو شمار کرنے والی عادت پوری کی اور شماریات کرسیاں کا فریضہ نبھایا جو کہ کم و بیش سو کے قریب تھیں۔ چشم نیک سے بغور دیکھا تو ہر میز پر پانی اور جوس کو موجود پا کر یک گونہ اطمینان ہوا کہ کوئی آوے نہ آوے لنگر کا انتظام یہاں بہرحال برابر ہے۔

کچھ دیر تک جب کوئی نہ آیا تو غریب آدمی نے جوس نوش جاں کرنا شروع کیا اور تیسرے چوتھے ڈبے پر خیال آیا کہ ممکن ہے باقی لوگ بھی سچ مچ آن پہنچیں۔ تو اس بھائی چارے کی سوچ کی وجہ سے ہم نے چار عدد جوس غبن کر لینے کے بعد ہاتھ روک لیا اور بعد از تلاش بسیار ایک کنج سموکراں ڈھونڈ کر آنے والوں کی راہ دیکھنے لگے۔ قریب سوا چھ چند لوگ پہنچے جن میں سے شناسا رضا بھائی اور مولوی عاشق حسین تھے جو کے یہاں جادوگر کے نام سے بھی مشہور ہیں اور ان سب کے ہمراہ مظہر بودلہ صاحب بھی تھے۔ روئے گفتگو جنات کی موجودگی و ان کی طاقتوں کی جانب ہوا۔ قریب ایک گھنٹہ جنات پر مکالمہ کر لینے کے بعد نتیجہ یہی نکلا کہ جن کم از کم جتنے بھی طاقتور ہوں بھلے وہ کافر جن ہوں یا مسلمان وہ جارج بش کو تھپڑ نہیں مار سکتے اور اسی نکتے پر اسکا اختتام بھی ہوا۔

میر محفل انعام رانا شاید لندن کی ٹھنڈ سے یہاں دوبئی کا سورج بہت دنوں بعد دیکھ رہے تھے تو کہیں جمیرا کے ساحل پر لمے پڑے تھے اور یہاں ہم انتظار میں نہ جوس پی رھے تھے نہ چائے نہ دم نکل رہا تھا۔ کسی نے خبر دی کہ انعام کو اس مقام تک لانے والا انکا رہ نما ڈرائیور بالکل اپنی پاکستانی قیادت جیسا نکلا اور وہ ان کو ہماری قوم کی طرح کسی غلط پٹڑی پر چڑھا کر اب خود دشت دوبئی میں گواچ گیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو عاشق حسین کا جنہوں نے دوبئی کی سڑکیں اتنی ناپ رکھیں تھیں کہ گواچے ہوئے ڈرائیور کو سمیت انعام کے بذریعہ فون رہ نمائی کرتے ہوئے ہم سب تک پہنچا دیا۔

موضوع اس کا سوشل میڈیا، ہمارے حقوق و فرائض، اور ذمہ داریاں بطور سمندر پار پاکستانی تھا۔ سبھی دوستوں نے فرداً فرداً اظہار خیال کیا۔ خود انعام بھی اپنے لندن سے پیک شدہ خیالات کا برملا اظہار کیا۔ تمام دوستوں کے چیدہ نکات کچھ یوں تھے کہ۔۔

تمام سمندر پار پاکستانی اپنے وطن کے نمائندے ہوتے ہیں اور ان کا رویہ اور برتاؤ دوسری اقوام عالم کے ساتھ بہترین ہونا چاہیے جس سے بطور ایک قوم ہمارا تاثر بہتر ہو سکے۔

کوئی بھی خبر، واقعہ دوسروں کی طرف پہنچانے یا شئر کرنے سے پہلے حتی الوسع اس کی تحقیق کر لینی چاہیے اور جھوٹی و منفی خبریں پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔

سیاسی وابستگی یقیناً ایک لازمی امر ہے مگر کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کرتے ہویے ہمیں وطن عزیز کو سب سے مقدم رکھنا چاہیے کہ وہی سب سے اہم ہے۔

اپنی بساط مطابق سبھی احباب کو اپنے اپنے سوشل حلقے میں انگریزی زبان کا مواد بھی شئر کرنا چاہیے جو کہ ہم سمندر پار پاکستانیوں کے ساتھ دوسری اقوام کے جڑے لوگوں تک ہماری بات پہنچ سکے۔

جو سمندر پار مزدور طبقہ ہے ان سے جڑنے کی یا کچھ حد تک ایسے اجتماعات کے منعقد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے وہ طبقہ بھی باہر نکلے اور باقی سوشل معاملات میں ان کا بھی کچھ حصہ پیدا کیا جا سکے۔

اس بات پر کامل اتفاق پایا گیا کہ سمندر پار پاکستانیوں کا پاکستان پر بولنے لکھنے سوچنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی پاکستان کے اندر رہنے والے کا ہے بلکہ ان کا حق زیادہ ہے کہ وہ آپ کی اکانومی میں ایک بہت بڑا حصہ ڈالتے ہیں اور اپنے ملک کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری خطبہ چونکہ قاری صاحب کے ذمے تھا مگر وہ کچھ گھریلو مصروفیات کی وجہ سے نہ آسکے اس لیے یہ اختتامی خطبہ انعام کو دینا پڑا اور پھر سارا مکالمہ خاندان ہنسی خوشی رہنے لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply