قاری حنیف ڈار کے آستاں پر۔۔۔۔ عظمت نواز

تھی خبر گرم    تھی کہ  انعام پدھارے دوبئی اور بروز جمعہ قاری صاحب کے حضور بہ غرض ملاقات ابوظہبی آویں گے – ہم مشتری ہشیار باش کی مانند قریب سوا دس بجے قاری صاحب کے آستانے پر لینڈ ہو گئے – ابھی باہر کھڑے ہو کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ مسجد کے پچھلے دروازے سے قاری صاحب اپنی دھن میں برآمد ہوئے اور رفتار سے روانہ تھے کہ ہم نے صدا دے کر روک لیا – ہم بھی تو کھڑے ہیں راہوں میں، اے میر محفل ذرا ویخ کے چل ۔۔۔

قاری صاحب نے فوری طور پر پیش کش کی کہ آپ چائے نوش فرمانا چاہیں گے ؟۔۔تو ہم جو اس مشروب جہنم کے عادی ہیں فوری   حامی بھری اور قاری صاحب کی اقتدا میں چل پڑے – کچھ ہی دور جا کر قاری صاحب ایک زلف تراش کے ہاں گھس گئے تو میرا قاری صاحب والا “تراہ” نکل گیا کہ دو طرح کی سوچیں آن وارد ہوئیں – اول یہ کہ قاری صاحب یار کی زلفوں کے اسیر ہیں تو یہاں کسی تلاش میں آ نکلے یا پھر جو ہمیں مشروب جہنم پلانا مقصود تھا تو اس کارن ہمیں یہ کار جہنم یعنی مومنین کی داڑھی مونڈھنے والوں کے ہاں لا کھڑا کیا –

ابھی گومگوں کی کیفیت تھی کہ قاری صاحب لپک کر زلف تراش کے آگے براجمان ہو گئے اور ساتھ ہی ہوا حکم صادر کہ  بالکو ایک عدد چائے درکار ہے لائیو تو ذرا-وہاں نائی کا صابن کافی سلو تھا تو کچھ دیر بعد قاری صاحب نے صدا دی کہ بھائی   ذرا جلدی کر لو جمعہ کا وقت سر پر ہے تم کیا چاہتے ہو کہ میں یہاں بیٹھا رہوں اور وہاں جمعہ انعام رانا پڑھائے – جس پر نائی نے فوراً  کام نپٹایا اور ہم قاری صاحب کے ہمراہ واپس انکی مسجد پہنچے تو کافی تعداد میں لوگ  آچکے تھے مگر انعام رانا و دیگرے ندارد –

مختصر سی ایک منطقی تقریر کرنے کے بعد جمعہ مبارک ادا کیا گیا – بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے معاذ بھائی پر نظر پڑی تو سوچا ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے عظمت و معاذ نہ کوئی یوتھیا رہا نہ کوئی مداح نواز – جمعہ کھڑکا نے کے فوراً  بعد باہر نکل کر تمام مومنین نے اجتماعی طور پر سگریٹ سلگائے اور عمران کی حکومت پر لعن طعن کی – اصل مرحلہ دوزخی پیٹ بھرنے کا تھا کہ یہ کب اور کس جگہ ہو پاوے گا تو قاری صاحب نے انعام کو اپنی کار میں بٹھایا ہم بھی باقی بھائیوں کو چھوڑ کر اسی کار میں فوری سوار ہو گئے کہ کہیں قاری صاحب انعام اکیلے کو ہی طعام کرا کر واپس لائیں اور ہم یہیں رہ جائیں –

احمد العرب ہوٹل پر پہنچ کر اجتماعی دانش بروئے کار لاتے ہوئے کھانے کا آرڈر دیا گیا اور میر مجلس قاری صاحب سے پے در پے سوالات ہونے لگے جن کے جوابات قاری صاحب نے مدلل و تسلی سے دئیے – انکی گفتگو جتنی طویل ہو مگر انداز گفتگو و شریکات جگت و لطائف اسکو پُر مزاح رکھتے ہیں – شریک محفل افراد میں انعام و قاری صاحب سے سوا کسی سے واقفیت نہ تھی البتہ فیسبک کی حد تک ہمارے معاذ بھائی سے تعارف تھا جو کہ نہایت خوشگوار ثابت ہوا۔

کھانا لگ جانے کے بعد تمام افراد سلاطین دہلی کی طرح ٹوٹ پڑے اور آخری نوالہ ختم ہونے تک کسی نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا – کھانے کے بعد ہاضمے کے لیے پھر قاری صاحب نے اپنی گفتگو کی پھکی سب کو دی اور یوں کھایا پیا وہیں ہضم کر لیا – باہر نکلتے ہی مومنین نےایک بار پھر سے  اجتماعی سگریٹ لگائے اور نواز شریف کے فضائل پر روشنی ڈالی اور وہیں پر فرض وکھایہ بھی پورا کیا گیا –

اب ملا کی دوڑ مسجد تک سنی تو تھی مگر دیکھی کل کہ قاری صاحب کو پہلے جمعہ پڑھانے کے لیے بھی پہنچنا تھا پھر کھانے کے بعد فوری کہ اب عصر کا وقت مسجد وقت پر پہنچنا لازم ہے – سب احباب پھر واپس مسیتی پہنچے اور جہاں انعام رانا نے مسجد کے منبر پر مختصر سا خطبہ دیا جس کو پانچ سامعین نے نہایت دلجمعی سے سنا اور قاری صاحب سے رخصت لے کر شیخ زاید مسجد روانگی کے لیے تیار ہوئے مگر جانے سے قبل معاذ بھائی کو دفتری کام سے نکلنا پڑا تو باقی ماندہ لاؤ لشکر انعام، ثاقب، شاہنواز، اور محترم شہزاد بھائی پرمشتمل تھا وہ گرینڈ مسجد یعنی شیخ زاید مسجد پہنچا –

Advertisements
julia rana solicitors

خوبصورت کام کی حامل مسجد دیکھی فرض وکھایہ یہاں بھی پورا کیا گیا – مسجد کی حدود سے نکل کر  انعام رانا نے ایک سوال داغا کہ یارو یہ فرنگنیں آج یہاں تو بہت دلکش معلوم ہو رہی ہیں جبکہ وہاں لندن میں ان میں کبھی کوئی کشش نہ دیکھی تس پر فرمایا کہ گھر کی مرغی دال برابر والا محاورہ اسی دن کے لیے بنا تھا سائیں – خیر توجہ ان سے ہٹا کر پھر کافی پینے اور سگریٹ پھونکنے پر دی گئی-یہاں سے انعام و انکے ساتھ آئے دوبئی کے احباب کو میں نے اور ثاقب نے اس امید پر کہ یہ ملاقاتیں پھر بھی رہیں گی روانہ کیا اور خود گھروں کی راہ لی –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply