بینک کے ہرکارے۔۔۔عظمت نواز

جب ہمیں باوجود بعد از کوشش بسیار کوئی نوکری نہیں مل رہی تھی تو ایک مہربان نے ان دنوں ABN Amro بینک ایف سیون مرکز میں لگوا دیا – گو کہ ہم بینکاری کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے اور الحمد للہ آج بھی نہیں ہیں – البتہ ان دنوں کام بینک کاری کا نہیں تھا بلکہ ہرکاری کا تھا – بس جو بینک کے کریڈٹ کارڈز اور قرضوں کے جال میں پھنسے تھے ان کو فون کرنا، کبھی میٹھا بولنا، کبھی کڑوا بولنا، کبھی دھونس دھمکی، کبھی ترلے کرنا، الغرض ہر طریقہ واردات اپناتے کہ کسی طریقے سے بس ایک آدھ قسط یہ بندہ ہمیں عنایت کرے باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے – اگر فون ندارد تو ان کا ابھیجیت کی طرح پتہ لگانا، دفاتر کے چکر لگانا، ان کے گھروں پر ان کو جا لینا، کہیں سے گالیاں سننا، کہیں سے منت ترلا سننا، کہیں سے مقروض کی داستان غم سننا، الغرض دہندگان بھی ہر طریقہ واردات اپناتے تاکہ اس مہینے یہ بینک والے ٹل جائیں ۔۔

آبپارہ مارکیٹ کے تاجر حضرات نے تو ہمارے خلاف اس حد تک ایکا کر رکھا تھا کہ بڑے بڑے بینرز مارکیٹ میں جگہ جگہ لٹکا رکھے تھے جن پر ہمارے سنیر حضرات کے نام، بینک کا نام، اور اس بینک سے وارد ہونے والے وصول کنندگان کی آؤ  بھگت کے بارے کافی تفصیلات لکھی ہوتی تھیں ،چونکہ ان دنوں ہمیں” وصولی استعارہ” بر وزن “جمہوری استعارہ” بننے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا سو ایسی تتی جگہ سے آنکھ اور پیر دونوں بچا کر نکل لیتے تھے کہ جان ہے تو جہان ہے استعار پنا کسی ہور مسکین پر دکھا لیویں گے ۔

چلتے چلتے یہ بتاتے چلیں کہ یہ جو ہر خاص و عام کی نگاہ کو مرکز سینٹورس مال ہے اس کی بنیادوں میں ہمارے انگنت پھونکے ہوئے  سگریٹ شامل ہیں یعنی سگریٹ کے ٹوٹوں سے سینچا ہے اسے ہم نے ، یادش بخیر اکثر سیکرٹریٹ جانا ہوتا تھا اور ہم اپنی قوم کے افسروں کو بارہا وہاں مکھیاں مارتے دیکھتے تھے – یونہی ایک دن ترنگ میں ریلوے کے کسی بڑے افسر کی خبر ہم نے فون پر ہلاکو خان بن کر لے لی اور معاملہ ان افسر صاحب اور بینک کے دوران یوں طے پایا کہ آپ اس دانشور کو پاک سیکرٹریٹ بھجوائیں- جس پر ہوا حکم صادر کہ  سوئے مقتل چلو اور ہم بھی کسی دھن میں سوئے سیکرٹریٹ چل دیے – ان ریلوے افسر کے سامنے اپنی مسکینانہ صورت اور اپنے اندر غیر موجود تمام عاجزی صورت پر عیاں کر کے پہنچے تو اندر ایک نہایت ہی دلکش اور شفیق شخصیت کو دیکھا جو کہ شومئی قسمت سے وہی ریلوے افسر تھے – بڑی عزت سے بٹھایا چائے منگوائی گئی اور ہمارے علاقے، ذات قبیلے، تعلیم پر سیر حاصل گفتگو فرمائی گئی –

اپنی بے عزتی کے بدلے میں انہوں نے بس ایک جملہ فرمایا کہ “بیٹا تمھیں لگتا ہے  تم پر تمہاری تعلیم کا کوئی اثر ہوا ہے؟ ” اس کے علاوہ کوئی بات انہوں نے در معاملات بے عزتی نہیں کہی اور ہمیں ایک اچھا خاصا سبق دے کر دفتر سے لوٹا دیا -کاش کہ  میں ان کو بتا سکتا کہ صاحب تعلیم نے تو کچھ نہیں سکھایا مگر پیٹ بڑا پاپی ہے یہی اس طرح کے کارنامے کرنے پر اکساتا ہے تاکہ مہینے کے مہینے بینک کا پیٹ بھرتا رہے اور ہم بھی چند ہزار وصول کرتے رہیں –

ایسی ہی ایک وصولی کے چکر میں راولپنڈی صادق آباد کے ایک بدمعاش سے کیسے جان بچا کر نکلے وہ ایک الگ داستان ہے – جب ہم برانچ سے بیٹھ کر فون پر بات کرتے تو ایک دادا گیری والا انداز اپناتے اور ہر ایک کو اپنا نام غلط بتاتے مبادا کوئی بینک میں ہی آجائے اور پکڑ کر دھونا شروع کر دے – ایک کن ٹٹے ٹائپ جو شاید ڈھوک کالا خان کے رہائشی تھے کو ہم نے فون پر تباہ و برباد کر دیا، خدا خبر  اس کے دل میں کیا آئی کہ گھنٹے ڈیڑھ میں برانچ میں  آدھمکے اور فرمایا میں قسط ساتھ لایا ہوں مگر دوں گا تب جب میں اس ساجد نامی سورمے کو مل لوں گا جس پہلوان نے مجھے فون کیا تھا – اب پہلوان کے سوتے خشک ہو گئے لیکن نام غلط بتانے کا فارمولا آج جان بچانے کے کام آریا تھا یعنی وہ پوری برانچ میں ساجد نامی بندے کو ڈھونڈتے رہے تھے  اور ہم نے جس سیٹ سے فون کیا تھا اس کی تار فوری نکال دی کہ کہیں بندے نے کھڑے کھڑے کال بیک کا بٹن دبا کر اس سامنے پڑے فون کی گھنٹی بجا دی تو ہمارے بارہ بج جائیں گے –

ایک بات یقین سے بتا سکتے ہیں کہ اسلام آباد کے پوش علاقوں ایف سیون، ایف ایٹ، ایف ٹین، الیون وغیرہ وغیرہ سے کبھی کسی قسم کے قرضے کی کوئی  قسط وصول نہیں ہوئی اور نہ ہی ان بڑے بڑے محل نما گھروں میں ہمیں سوائے چوکیدار کے کوئی فرد ملا، تو قرضے کا واپس ملنا تو یقیناً  محال تھا – البتہ ہم جیسے بینک کے ہرکاروں کو جب کبھی بھی کہیں کوئی کامیابی ملی وہ کسی ماٹھے آدمی، مجبور، مسکین، لاچار آدمی سے پیسے نکلوا کر ملی- شاید ہی ہم نے کسی طاقتور بڑے کاروباری آدمی کو قرضے کی کوئی قسط لوٹاتے دیکھا ہو اور کسی کو ان سے زیادہ تقاضا کرتے بھی نہیں دیکھا کیا خبر کیوں ایسا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مشاہدے میں یہی آیا کہ نوکری پیشہ بندے کو کریڈٹ کارڈز جیسی بلا سے حتی الوسع دور رہنا چاہیے خاص کر وطن عزیز میں کیونکہ سیدھی بات آپ کو کسی نے بتانی نہیں اور جو چار پانچ ہزار روپے نوکری پیشہ بندہ کسی طرح بچا کر بطور قسط دیتا رہتا اس کا فائدہ کھکھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ بینک کا پیٹ بھرتا رہتا  ہے – اس دور کی سب سے اچھی بات وہ عشق تھا جو ہم نے وہاں پالے رکھا اور آخر کار اسی عشق کے ڈسنے کے کارن ہماری نوکری تیل ہو گئی ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply