بستی کا چاند ٹوٹ گیا۔۔۔جاوید حیات

کل شام سمندر کنارے ٹائر گھمانے والے بچے بھی اداس دِکھ رہے تھے، اور پتنگ اڑانے والے بچوں کی پتنگوں کو جیسے اڑتی چیل کھا گئیں۔ گلیوں میں ایک خزاں جیسی خاموشی اس طرح سے پتے توڑ رہی تھی جیسے کسی معذور شخص کی سائیکل کی چین ٹوٹ گئی ہو۔ گلیوں میں لوگ سرگوشیاں کر رہے تھے اور درد کا موسم دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مچھیروں کی بستی کا چاند ٹوٹ گیا ہو۔

کمشنر مکران ڈویژن کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری صاحب کی ناگہانی موت پر سمندر سے اٌٹھنے والی ہر موج افسردہ ہے، کنارے پہ کھڑی کشتیاں سوگ میں ڈوب گئی ہیں، ِمچھیروں کی زرد آنکھوں میں امید کا پرندہ کانچ کی طرح ٹوٹ گیا ہے، درد سے بوجھل آنکھیں اس کا رستہ دیکھ رہی ہیں، چاند کی کشتی کا وہ مسافر دُور جزیروں میں کہیں کھو گیا ہے۔

9 ستمبر 2019ء کی شام کمشنر مکران مچھیروں کی تاریخی بستی ڈھوریہ میں ان کے مسائل دیکھنے خود چل کر آئے تھے اور گوتری پاڑے کے ماہی گیروں کی شکایت پر خود چل کر دیمی زِر ایکسپریس وے کے کام کا جائزہ لیا، اور اس ایریے کا کام فوراً روک دیا جس کی ماہی گیروں نے شکایت کی تھی۔

کمشنر مکران کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری کے سامنے ڈھوریہ کے مقام پر ماہی گیروں نے سارا دکھڑا بیان کر دیا۔

میں نے کمشنر مکران کی آنکھوں میں اس درد کو شدت سے محسوس کیا۔ اس نے کنارے پر تعمیر ہونے والی سڑک سے زیادہ اس گرتے ہوئے ملبے کو دیکھا تھا جو کنارے پہ آباد مچھیروں کی ہزار سالہ تاریخ کو دفن کر رہی تھی۔

اس نے ماہی گیروں کو یہ امید دلائی کہ ہم اس ترقی کو روک تو نہیں سکتے لیکن آپ لوگوں کو اس ترقیاتی عمل میں شامل ضرور کریں گے، اس کنارے کا ایک مختصر حصہ ضرور بچائیں گے جہاں سے آپکے گھر کی ہنڈیا پکتی رہے اور آپ کے بچوں کی بھوک مٹے۔

اس نے چائنا کمپنی میں ماہی گیروں کے بچوں کو ایک ہزار نوکریاں دلوانے کا وعدہ کیا اور ساتھ میں یہ تک کہا کہ ان بچوں کی کوئی ڈگری یا تعلیمی قابلیت نہیں دیکھی جائے گی، صرف اس کے ہاتھ پاؤں سلامت ہوں، وہ نوکری کا حق دار ہوگا۔

وہ ڈھوریہ کے شیڈ کے نیچے مچھیروں سے بات کر رہے تھے کہ ماسی سکینہ مجمعے میں داخل ہوئی، تو باپ پارٹی کے ضلعی صدر ہوت غفور نے کمشنر صاحب سے کہا کہ یہ اس بستی کی ماں ہے، ہم سب کی ماں ہے۔ کمشنر صاحب نے ماسی سکینہ کو اپنے درمیان بٹھا لیا اور جلسہ ختم ہونے تک وہ کمشنر کے ساتھ بیٹھی رہی۔

کمشنر صاحب نے لوگوں کو یہ خوش خبری بھی دی کہ موجودہ صوبائی حکومت کو باہر کے ممالک کی طرف سے ایک پیکیج ملا ہے جو لسبیلہ اور گوادر کی ڈویلپمنٹ پر اس طرح خرچ کیا جائے گا کہ ان شہروں کا بنیادی ڈھانچہ ماڈرن شہروں کی طرح دِکھے۔

اس نے ماہی گیر ہاؤسنگ اسکیم کی الاٹمنٹ کی بھی خوش خبری بھی سنئی کہ بہت جلد ہم اس اسکیم کو آپ کے لیے اس طرح ڈیزائن کریں گے، جو آپ کے بچوں کے لیے ایک بہترین رہائشی کمپلیکس کی شکل میں نظر آئے۔

آخر میں اس نے ماہی گیروں سے یہ وعدہ بھی کیا کہ میں ہر پندرہ دن بعد ڈھوریہ کی اس بستی میں آپ کا درد بانٹنے ضرور آؤں گا۔

کمشنر صاحب کو ڈھوریہ کی بستی سے گئے ہوئے جب چودہ دن گزر گئے تو ہر دوسرے مچھیرے نے اس کے آنے کا انتظار کیا، ایک ماہی گیر نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ”میں کل شکار سے جلدی واپس آؤں گا کیونکہ کمشنر صاحب آئیں گے۔“

کنارے کا مسخ شدہ چہرہ دیکھنے یہاں بہت سارے لوگ آئے تھے لیکن ان کے جانے کے بعد ماہی گیروں نے اس قدر انتظار کسی کا نہیں کیا جتنا کمشنر مکران کا کیا ہے۔

یہاں کنارے کے زخم دیکھنے جتنے بھی لوگ آئے، سب کو اپنی گاڑیوں میں بیٹھنے کی بہت جلدی تھی، سب کو زخموں پر مرہم رکھنے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ ہماری ٹانگ کسی مچھیرے کے جال میں نہ پھنس جائے۔

کمشنر مکران کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری وہ پہلا شخص تھا جیسے وہ دیمی زر کے کنارے کو دیکھنے نہیں، اپنے کسی عزیز کی عیادت کرنے آیا ہو۔

کمشنر صاحب کو یہاں سے گئے ہوئے جب ایک ماہ گزر گیا تو ایک شام ماسی سکینہ مجھ سےکہنے لگی، ”یہ لڑکا بھی ہمیں ڈاکٹر مالک اور کہدہ بابر کی طرح جھوٹی تسلیاں دے کر چلا گیا۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

کل شام جب میں ماسی سکینہ سے ملا تو اس صدمے سے اس کی آنکھیں چھلک رہی تھیں، وہ گم سم بیٹھی رہی اور مغرب سے پہلے چلی گئی۔ کنارے کی آخری امید مچھیروں کی بستی کا چاند ٹوٹ گیا۔ ماسی کو اس شخص کے آنے کا اس شدت سے انتظار تھا، جس طرح ایک بوڑھی ماں پردیس سے لوٹنے والے بیٹے کا انتظار کرتی ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply