کوہ سلیمان کا قبائلی سردار۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

عثمان بزدار صاحب نے جب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالا ہے تب سے ہی انکی کارکردگی پہ منظم تنقید کی جارہی ہے۔ ایک منظم میڈیا کمپین چلائی جا رہی ہے ۔ایک معروف ٹی وی چینل اور معروف ٹی وی اینکر مسلسل دو سال سے انہیں اَن پڑھ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے، بالآخر بزدار صاحب کو خود کو پڑھا لکھا ثابت کرنے کیلئے انٹرویو دینا پڑا۔ تب جا کے اینکر صاحب کو یقین ہوا کہ بزدار صاحب واقعی پڑھے لکھے سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ بزدار صاحب چونکہ خاموش طبع اور شریف النفس انسان ہیں۔ سکرینی کارکردگی کی بجائے زمینی کارکردگی پہ یقین رکھتے ہیں ۔کوشش کرتے ہیں کہ میڈیا سے دور رہ  کے اپنے کام پہ توجہ دیں کیونکہ کارکردگی بتانے سے نہیں دکھانے سے نظر آتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی شک ہے کہ عثمان بزدار صاحب میڈیا کو دیکھ کے گھبراتے ہیں تو ان کیلئے عرض کرتا ہوں کہ عثمان بزدار صاحب ملتان کے معروف وکیل بھی رہے ہیں اور وکیل کس طرح بولتے ہیں اسکا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔

نسل در نسل سیاستدان جو خود کو اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ ان سے  یہ ہضم ہی نہیں ہو رہا کہ کوہ سلیمان جیسے پہاڑی سلسلے کے پسماندہ علاقہ کا کوئی نوجوان وزیراعلیٰ کیسے بن سکتا ہے ؟

اقتدار کی غلام گردشوں کے مالک جن میں جنوبی پنجاب کے نمائندے بھی ہمیشہ شامل رہے ہیں۔ وہ سب جنوبی پنجاب کے لوگوں کو کند ذہن اور کم عقل سمجھتےہیں ۔ بیوروکریسی میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کے لوگ مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یا ذہین نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ بھی بیوروکریٹک سسٹم پہ حاوی لوگوں کی بددیانتی ہے جو ہمیشہ سے انکی نیتوں پہ مسلط رہی ہے کہ سول سروس انکی خاندانی ملکیت ہے اور صرف وہی اس ملک کو چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اگر بات ذہانت کی ہے تو اسکو بھی کمپیئر کر لیتے ہیں۔ اگر آپ صرف تونسہ شریف کے لوگوں کو ہی لے لیں اور سروے کرائیں تو آپکو تونسہ شریف کے تقریباً ہر گھر سے کوئی ڈاکٹر, انجینئر ضرور ملے گا۔ اس وقت پورے پاکستان میں بلکہ دنیا میں کوہ سلیمان کے رہائشی پہاڑی باشندے ڈاکٹرز اور انجینئرز کی حیثیت سے کام کر کے اس ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر ,انجینئر ,پروفیسر ,سائنسدان تو بن جاتا ہے لیکن وہ سول سپیریئر سروس کے امتحان میں ناکام ہو جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایک عام بی اے پاس لڑکا سی ایس ایس کلیر کر کے بیوروکریٹ بن جاتا ہے۔ایک مائنڈ سیٹ ھے جو ٹیلنٹ کی راہ میں حائل ہے۔۔اور عثمان بزدار صاحب بھی اسی مائنڈ سیٹ کا شکار ہوئے ۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب نامزدگی پہ ھی ان کے خلاف خوفناک میڈیا وار لانچ کر دی گئی۔

قصہ کچھ ایسا بنا کہ اگست میں وزیراعلیٰ کے منصب کا بوجھ اٹھانے کیلئے کچھ لوگوں نے شیروانیاں سلوانے کے آرڈر دینے شروع کر دیئے۔شیروانیاں تیار ہو کے گھر بھی پہنچ گئیں ۔ ایک صاحب نے تو باقاعدہ طور پہ بیوروکریسی سے مبارک بادیں وصول کرنا شروع کردیں بلکہ اپنی کابینہ بھی ترتیب دینا شروع کر دی۔

لیکن حکمران کا فیصلہ تو اللہ رب العزت کی ذات کرتی ہے۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔ 17 اگست کی شام کو اچانک عمران خان صاحب نے سردار عثمان احمد خان بزدار صاحب کی نامزدگی کا اعلان کر دیا ۔گمنانی کی زندگی گزارنے والا نوجوان لمحوں میں ہی پنجاب کی تقدیر کا مالک بنا دیا گیا۔
دل چھناکے سے ٹوٹ گئے ۔ارمانوں کے خون ہو گئے۔ خود کو تخت لاہور کے مالک سمجھنے والے بڑے بڑے سیاسی انویسٹر غیض و غضب سے بپھرے عثمان بزدار پہ چڑھ دوڑے ۔ نسل در نسل غلام لوگوں کو حکمران بنتے دیکھنا سٹیٹس کو کی موت تھی۔۔

عمران خان کے اس فیصلے سے موت کی سی خاموشی چھا گئی۔۔۔۔
طوفان سے پہلے والی خاموشی۔۔۔ پھر فون کی طوفانی گھنٹیاں بجیں
73 سالہ غلیظ بدبودار گلا سڑا مافیا حرکت میں آیا
کچھ ٹی وی چینلز حرکت میں آئے ۔ ہم مقصد اکھٹے ہوئے۔سر جوڑے گئے اور فیصلہ ہوا کہ
بزدار کا راستہ روکو
آناًفاناً  بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوئیں۔۔

ایک مشہور ٹی وی چینل پہ تین گھنٹے کی مسلسل بریکنگ نیوز چلی ۔۔۔”عثمان بزدار قاتل نکلے “میڈیا ٹرائل اتنا خوفناک تھا کہ پورے ملک میں بھونچال آگیا۔
میرے جیسا شریف آدمی بھی سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ عمران خان نے غلط فیصلہ کیا ہے۔

بالآخر اسلام آباد سے لاہور کے معروف سیاستدان کو شٹ اپ کال دی گئی اور عمران خان کودوبارہ ٹی وی پہ آکے اعلان کرنا پڑا کہ عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ ہوں گے۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔شیروانیاں کھونٹیوں پہ ٹنگی رہ گئیں اور وقتی خاموشی چھا گئی ۔بعد میں میڈیا تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ وہ کوئی اور عثمان بزدار تھے جو کسی قبائلی لڑائی میں شامل تھے جن کی پرانی ایف آئی آر کو عثمان بزدار کے ساتھ نتھی کر کے انہیں میدان سیاست سے باہر کرنے کی بھرہور کوشش کی گئی اور اس کھیل میں ڈیرہ غازی خان کے ہی کچھ بڑے سردار شامل تھے۔

لیکن لوگ بڑے کینہ پرور ہوتے ہیں۔۔۔موقع ملتے ہی ڈنک مارتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ بزدار صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے۔اپنے پرائے سب بزدار صاحب کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
بزدار صاحب کا قصور یہ ہے کہ وہ ایک شریف اور عاجز آدمی ہے۔

پرائمری سکول بارتھی سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور ملتان ایمرسن کالج سے ہوتے ہوئے بہالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے سیاسیات میں ماسٹر ڈگری اور ایل ایل بی تک تعلیم مکمل کی۔
(بارتھی کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کا ایک نہایت پسماندہ پہاڑی علاقہ ہے) ۔

بارتھی جانے کا اتفاق ہوا۔ 3 گھنٹے کے پرمشقت جیپ کے کٹھن پہاڑی سفر اور رود کوہیاں کراس کرنے کے بعد بارتھی پہنچا۔ بزدار صاحب کا گھر دیکھا ۔ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے ایک میدانی علاقہ میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جسکی آبادی چند گھروں پہ مشتمل ہے اور ان گھروں میں پتھروں سے بنا ہوا ایک گھر سردار عثمان بزدار صاحب کا ہے ۔بجلی نہیں ہے۔ لوگ چشموں سے پانی حاصل کرتے ہیں یا رودکوہیوں سے پانی ذخیرہ کر کے پانی کی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ وہاں کے باشندوں سے ملاقات ہو ئی۔ انتہائی بھولے بھالے شریف لوگ ہیں۔ ملنسار, ہنس مکھ عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ھے۔ مہمان نواز اتنے ہیں کہ غریب چرواھے بھی کوشش کرتے ہیں کہ مہمان ان کے گھر سے کچھ نہ کچھ کھا کے ضرور جائے۔ سچے کھرے اور ایماندار لوگ ہیں۔
یقین جانئیے۔۔۔ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ھے کہ ابھی تک انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ وزیر اعلیٰ ہوتا کیا ھے۔ اسکے اختیارات کیا ہوتے ہیں۔

مقامی باشندوں سے ملاقات اور شرافت کو دیکھتے ہوئے مجھے عمران خان کی wisdom اور بزدار صاحب کی قسمت پہ رشک آیا اور دماغ میں بس ایک ہی بات گونجی
” رب جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے،جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے”۔

ایک قبائلی پسماندہ علاقے کا لڑکا آج سے 28 سال پہلے سیاسیات میں ماسٹرز کرتا ہے۔ ایل ایل بی کرتا ہے۔ اور پھر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرتا ہے
لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہمارا پورا سیاسی نظام اسے ان پڑھ ,اجڈ ,گنوار ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کیونکہ لغاری, مزاری,کھچی,قریشی,اور بہت سے سیاسی خاندان جو 73 سال سے خود کو اس قوم کا خود ساختہ نجات دہندہ سمجھتے تھے وہ بھلا کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ ایک سابقہ ممبر صوبائی اسمبلی سردار فتح محمد بزدار مرحوم قبائلی سردار کا بیٹا انکے ساتھ ساتھ پورے پنجاب کا سردار بن جائے۔

جو لوگ قبائلی کلچر کو نہیں جانتے۔۔ ان کیلئے عرض ہے کہ قبائلی سردار انصاف کرنے اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتے ہیں ۔صحیح وقت پہ صحیح فیصلہ ہی قبائلی نظام کی بقا کا ضامن ہوتا ھے ۔قبائلی نظام کی بقا بہترین نظام انصاف پہ مبنی ہوتی ہے۔ جس قبیلے میں انصاف کا فقدان ہو۔ وہ قبیلہ برادری میں تبدیل ہو جاتا ھے اور ہر برادری کے اپنے دھڑے ہوتے ہیں۔ یوں کہ لیں کہ قبیلہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عثمان بزدار فیصلہ سازی میں کمزور ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
اگر آپ نے کارکردگی کی جانچ کرنی ہے تو بیوروکریسی سے پوچھئے۔
جو بیوروکریٹ خود کو کبھی سپریم سمجھتے تھے اور اپنے ائیر کنڈیشنڈ آفس سے نکلنا اپنی شان میں گستاخی تصور کرتے تھے۔
یقین کیجئے اب انکی حالت دیکھ کے ترس آتا ہے۔ عثمان بزدار قبائلی سردار ہے اور قبائلی بڑے جفاکش ہوتے ہیں تو بزدار صاحب اس ولائیتی بیوروکریسی کو بھی قبائلی سمجھ بیٹھے۔ان سے اپنے انداز میں کام لینا شروع کر دیا اور اپنے ساتھ ساتھ بیوتوکریسی کو بھی خفا کش بنا دیا۔
نامی گرامی بیوروکریٹس کو دور دراز علاقوں میں بھوک مٹانے کیلئے پکوڑوں کے ساتھ روٹی کھاتے دیکھا ہے۔
منرل واٹر پینے والوں کو گاؤں کے ہتھ نلکے سے پانی پیتے دیکھا ہے
کمشنر لیول کے لوگوں کو رات کے وقت سیوریج کے گٹر کھلواتے دیکھا ہے۔
سخت بان کی بْنی چارپائیوں پہ کمر سیدھی کرتے دیکھا ہے۔
اگر کسی نے بیوروکریسی کو کام کرتے دیکھنا ہے تو وہ جنوبی پنجاب کا وزٹ کرے۔ آپ کو سرکاری دفاتر میں کام ہوتا نظر آئے گا۔ رات گئے بھی دفاتر کھلے نظر آئیں گے۔ بیوروکریسی کے اپنے الفاظ ہیں کہ پوری سروس کے دوران اتنا کام نہیں کیا جو اس بزدار نے ان دو سالوں میں لے لیا ہے۔
اگر بزدار صاحب کی کارکردگی پہ ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ
نواب امیر محمد خان مرحوم کے بعد اگر کسی حکمران نے بیوروکریسی کو اپنے دفاتر سے باہر نکل کے کام کرنے پہ مجبور کیا ہے تو وہ عثمان بزدار صاحب ہی ہیں۔

رہی بات پنجاب حکومت کی کارکردگی کی تو آئیے اس پہ بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔
آج ہم تبدیلی اور بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کا ذکر کریں گے ۔
کیا کسی ملک میں تبدیلی سڑکوں،پلوں یا عمارتوں کی تعمیر سے آتی ہے یا ملکی معیشت اور قومی اداروں کی بہتری سے آتی ہے؟
کیا تبدیلی جھوٹی اور جعلی سکیموں سے عوام کے اربوں روپے ہڑپ کرنے سے آتی ہے یا عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے سے آتی ہے؟
تبدیلی کس بلا کا نام ہے آج ہم اس پر غور کریں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال بیت گئے ہیں اگر ہم اس دوران حکومت پنجاب اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ سردار عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب حکومت نے 5 سال کا کام دو سال میں مکمل کر لیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ ہم اداروں کو خود مختار بنا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی قیادت میں حکومت پنجاب نے عوام کی فلاح وبہبود اور معیار زندگی بلند کرنے کےلئے بے شمار اقدامات اٹھائے جن کو ملکی وغیر ملکی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی اور عوام کا سیاسی نظام پر اعتماد بحال ہوا۔ وزیراعلی کی جانب سے محکمہ صحت پنجاب میں یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ سائنسز لاہور،مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال لاہور کا قیام، ٹیچنگ ہسپتال ڈی جی خان میں گائنالوجی بلاک کا قیام،ملتان کارڈیالوجی ہسپتال کی تعمیر جو پچھلی حکومت میں روک دیا گیا تھا لیکن اب اسکی تعمیر شروع ھے , نشتر ہسپتال ٹو کی تعمیر , ٹرثری کیئر ہسپتالوں میں 279وینٹی ولیٹرز،199آئی سی یو بیڈز اور 333پیشنٹ مانیٹرز کی فراہمی،پنجاب میں صحت انصاف کارڈز کی فراہمی، ڈی جی خان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا قیام، ڈی ایچ کیو ڈی جی خان کی اپ گریڈیشن، ٹیلی میڈیسن کی سہولت،میانوالی،لیہ اٹک اور راجن پور میں 200بیڈز کے حامل مد ر اینڈ چائلڈ ہسپتال اینڈ نرسنگ کالج کا قیام،ہسپتالوں میں معیاری ادویات کی فراہمی، THQsاورRHCsکی ری ویمپنگ،16اربن ہیلتھ سنٹرزکا قیام، وزیراعظم ہیلتھ اقدامات کے تحت 8ارب روپے کی لاگت سے 18اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن، پنجاب کی 38جیلوں میں HIVسکریننگ سہولیات کی فراہمی،نوجوانوں میں ایڈز سے بچاﺅ کےلئے آگاہی کےلئے صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں میں آگاہی مہم کا آغاز، تعلیمی اداروں میں ماڈل ہیلتھ رومز کا قیام،کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے شکایات کا ازالہ،سکول ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن پروگرام کا آغاز، اینتھسیزیا ماہرین کی کمی کو پورا کرنے کےلئے 225نئے میڈیکل افسران کی تربیت،17ہزار ڈاکٹروں کی بھرتی اور سرکاری ہسپتالوں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے منصوبہ جات ,دانش سکولوں کی تکمیل اور سٹاف کی ریکروٹمنٹ , لاہور میں انڈر گراؤنڈ 5 کروڑ گیلن کے واٹر ٹینک کی تعمیر سمیت بے شمار اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

اگر پنجاب کے دوسرے اہم محکمہ محنت وانسانی وسائل کی بات کی جائے تو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے نئی لیبر پالیسی کے تحت 6نئے قوانین ،PESSIآرڈیننس میں ترمیم،کام کے دوران اتفاقی حادثات اور خطرات کی طرف توجہ دلوانے کےلئے پنجاب آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایکٹ 2019، معاشرے کے کمزور ترین طبقے اور گھریلو ملازمین کی داد رسی کےلئے پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ2019،مزدوروں کے تحفظ کےلئے پنجاب مینیمم ویجز ایکٹ2018میں کم سے کم ماہانہ تنخواہ 16500روپے کا تقرر،گھریلو ملازمین اور ان کے مالکان کی رجسٹریشن کے لئے آگاہی مہم کا آغاز،ورکرز ویلفیئر فنڈز کی فوری فراہمی کے لئے قانون سازی،کمپنی ملازمین کی فلاح وبہبود کےلئے قانون سازی،صنعتی ملازمین کی فلاح وبہبود کےلئے نیا پیکج، بچوں کےلئے ہاﺅسنگ کی سہولت،شادی گرانٹ،مفت تعلیم اور وظائف ،سرکاری ملازمین کے بچوں کےلئے میرج گرانٹ میں تین گنا اضافہ،سرکاری ملازم کی وفات کی صورت میں 50ہزار جنازہ گرانٹ اور بیوہ کی ماہانہ گرانٹ 5ہزار سے بڑھا کر تاحیات20ہزار روپے تک کا اضافہ، 2012 سے کھٹائی میں پڑی لیبر کالونیوں کی الاٹمنٹ کی بحالی،ملتان اور لاہور میں 3کالونیوں کی تکمیل، 700 خالی آسامیوں پر میرٹ پر بھرتی ،208پرائمری سطح کے اساتذہ کی ترقی، PESSI قوانین میں ترمیم کی بدولت ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو صحت انصاف کارڈ کی فراہمی،تمام سوشل سکیورٹی ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن، رحیم یار خان، سرگودھا اور ڈی جی خان میں نئے سوشل سکیورٹی ہسپتالوں کا قیام اور کاروباری مراکز اور اداروں کی رجسٹریشن جیسے اقدامات شامل ہیں۔

کورونا وائرس جیسی موذی وبا سے نمٹنے کیلئے ہزاروں بیڈ ,ایکسپو سینٹر کو ایک ہفتے میں ہی 10000 بیڈ کے ہسپتال , میں تبدیل کر دینا جیسی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی سربراہی اور نگرانی میں تمام ادارے ملکی ترقی اور عوام کو ریلیف دینے کےلئے تمام تر توانائیاں خرچ کررہے ہیں۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیر محنت وانسانی وسائل انصر مجید خان کی سربراہی میں دونوں محکمہ جات میں اٹھائے گئے اقدامات انتہائی قائل ستائش اور لائق تحسین ہیں۔ وزیراعلی پنجاب کی ٹیم دن رات ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کےلئے کوشاں ہے۔اللہ پاک کے حضور تحریک انصاف کو ملکی ترقی کا سبب بنانے کےلئے دعا گو ہیں
میری نظر میں عثمان بزدار پنجاب کیلئے بہترین حکمران ثابت ہوا ہے۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان نے بہترین انتخاب کیا ہے۔۔۔
اللہ رب العزت آپ سب کو خوشیاں عطا فرمائے۔۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply