وڈی عید کی وڈی باتاں۔۔مہر ساجد شاد

واپس گھر آیا تو ذوجہ ماجدہ فرمانے لگیں آپ صبح صبح کہاں گئے تھے، اور واپس بھی اتنی دیر کے بعد آرہے ہیں ، موبائل بھی گھر پر چھوڑ گئے، اتنی احتیاط  !
میں نے کونسا آپکی جیوفنسنگ کروانا تھی۔
یہ تشویش بھرا سوال دراصل شک کا اظہار بھی تھا۔
بندہ رات کو غائب ہو تو شک کرنا بنتا ہے یہ صبح سویرے سیر کے وقت غائب ہونے والے قدرت کے رنگ دیکھنے نکلتے ہیں رنگ رلیوں کیلئے نہیں،
یہ میں آپکو بتا رہا ہوں شریف مودب شوہر ہوں ذوجہ ماجدہ سے کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

خیر اس دن ہوا یوں کہ دروازہ پر گھنٹی بجی تو باہر جا کر دیکھا ہمارے ایک دوست بھٹی صاحب کا بیٹا تھا، جو موٹر سائیکل پر تھا کچھ گھبرایا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا تایا جی وہ میرے ابو آپ کو بلا رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں جلدی آئیں۔
سب سو رہے تھے میں ٹراؤزر شرٹ میں ہی اس کے ساتھ روانہ ہو گیا کہ اللہ خیر کرے پتہ نہیں کیا ایمرجنسی ہو گئی ہے۔

وہاں پہنچا تو دیکھا بھٹی نے اپنے بکرے کو ذبح کر رکھا ہے اور بھٹی کے دونوں چھوٹے بھائی اس کے ساتھ افسردہ بیٹھے ہوئے ہیں۔

میں نے پوچھا کیا بات ہے بھٹی یار کیا مسئلہ ہے ؟
بھٹی تو ایسے صدمے میں تھا جیسے اسکی کمیٹی کی رقم لے کر کوئی فرار ہو گیا ہو،
بھٹی کا چھوٹا بھائی بولا : وہ ناں اصل میں بھائی نے اس بار فیصلہ کیا کہ آپکی طرح ہم بھی قربانی خود ذبح کریں گے انکا خیال تھا کہ آپکو ہر سال قربانی کرتے ہوئے دیکھ کر وہ سب سیکھ چکے ہیں۔
میں نے کہا یہ تو اچھی بات ہے اس میں مسئلہ  کیا ہے۔
وہ کہنے لگا : ہم سب نے بکرا پکڑا ،بھائی نے تکبیر پڑھی ،اسے ذبح کیا، بھائی نے کہا مجھے یاد ہے اب کھال اتارنے کیلئے اسے لٹکانا ہے اور اس سے پہلے اسکے سری پائے اتارنے ہیں ،
بھائی نے سری اور چاروں پائے اتار دیئے تو یاد آیا پچھلے پائے تو لٹکانے کے کام آتے ہیں اب مسئلہ  یہ بن گیا ہے کہ اسے لٹکانا کیسے ہے ؟؟

اب صورتحال واضع ہو چکی تھی، میں نے گھٹنوں کے جوڑ میں رسی ڈال کر انہیں بکرا لٹکا دیا، اب جب وہ اسکی کھال اتارنے لگے تو جو کچھ وہ کر رہے تھے وہ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا
آخر لیدرٹیکنالوجسٹ کھال کیساتھ ایسا سنگین ظلم کیسے برداشت کرتا۔

میں نے کہا ٹھہرو ،میں کھال اتار دیتا ہوں اگرچہ میں ویسا ماہر تو نہیں جیسا یہ کام بطریق احسن آج کل حکومت کر رہی ہے۔

اس مرحلہ سے فارغ ہوا تو بھٹی نے جوش میں کہا اس کے آگے مجھے پتہ ہے اسکے پیٹ سے اوجڑی نکالنا ہے، میں نکالتا ہوں۔
بھٹی نے لٹکے ہوئے بکرے کا پیٹ چاک کیا تو ایک دم سب نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا،
بھٹی نے بکرے کے پیٹ کیساتھ اسکی اوجڑی بھی چاک کر دی تھی،

مجھے پھر فوراً آپریشن کلین اپ لانچ کرنا پڑا، اس سے فارغ ہوئے تو اس حادثات کا شکار قربانی کا پریشانی سے مشاہدہ کرتی خواتین کو بکرے کے پھیپھڑے کلیجی نکال کر دئیے کہ آپ لوگ تو کچھ پکانے کی تیاری کریں۔

بکرے کے سینے اور ران کے حصے علیحدہ کر کے گوشت بنانے کیلئے چادر پر رکھے،وہاں بگدا مڈھی مطلب چھریاں ٹوکہ سب تیار تھا،
میں نے کہا بھٹی یار یہ لو اب گوشت بنا لو میں چلتا ہوں۔
اس سے پہلے کہ بھٹی کچھ بولتا اسکی بیگم جو باورچی خانہ میں کلیجی کاٹ رہی تھی وہ ہاتھ میں چھری لئے نمودار ہوئی اور بولی پروفیسر صاحب یہ آپکے دوست بھٹی نے سارے گوشت کا بیڑہ غرق کر دینا ہے انہیں کسی چیز کا پتہ نہیں اور قربانی خود کرنے بیٹھ گئے ہیں یہ آپ ہی مہربانی کریں گوشت بنا دیں۔
اب آپ ہی بتائیں بندہ ان حالات میں کیسے انکار کرتا،
وہاں اپنی مرکزی نشست سنبھالی اور ٹھکا ٹھک گوشت بنانے میں جُت گیا۔

اُدھر بھٹی صاحب کا کھویا ہوا اعتماد بھی بحال ہو چکا تھا، مجھے مسلسل مشورے ملنا شروع ہو گئے ، پروفیسر یہ چانپ کو خراب نہ کر دینا ،ذرا اسکا سائز بڑا رکھنا ہم اپنے حصے میں اسے رکھیں گے مجھے چانپ کا پلاؤ بہت پسند ہے۔

پھر ران کی باری آئی تو بھٹی نے پھر رہنمائی کی، پروفیسر یہ نلی کی بوٹیاں چھوٹی رکھنا زیادہ بنیں گی اسکا قورمہ بنائیں یا باربی کیو کریں بڑے مزے کی بنتی ہیں۔
دستی کا گوشت بنانے لگا تو بھٹی کے پاس ہدایات کا نیا ٹوکرا موجود تھا۔ اس نے ابھی بولنے کی تیاری پکڑی ہی تھی کہ ایک بار پھر بھٹی کی بیگم ہاتھ میں ڈوئی پکڑے ہوئے نمودار ہوئی اور بھٹی سے مخاطب ہو کر بولی : آپ اگر کچھ کر نہیں سکتے تو خاموش ہی رہ لیں، اپنی نالائقی کے باعث کام خراب کر کے صبح صبح ایک شریف آدمی کو آپ نے بلایا وہ آپکے نکمے پن کے شکار بکرے کو خیریت سے سنبھال رہے ہیں اب آپ سے چپ بھی نہیں رہا جاتا۔

بھٹی کی بیگم نے پورے غصے سے بھٹی کی طرف ڈوئی لہراتے ہوئے کہا: اب انکو کام کرتے آپ نے ٹوکا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
بھٹی خاموش ہو کر میرے بنائے ہوئے گوشت کی بوٹیوں کو الگ الگ کرنے لگا۔

مجھے بڑا ترس آیا میں نے کہا یار بھٹی تجھے کس نے کہا تھا کہ یہ بکرا خود ذبح کرنے کا پنگا لے لیا۔

اس نے میری طرف جس نظر سے دیکھا اسکے لئے مناسب الفاظ میں تلاش نہیں کر سکا، بولا میں نے سوچا کہ بیگم کو متاثر کرنے کا اچھا موقع ہے چلو یہ مشقت ہی کر گذرتے ہیں لیکن اب تو جو بے عزتی ہو گئی ہے آئندہ میری توبہ، پروفیسر تم پتہ نہیں کیسے کر لیتے ہو سب کچھ۔
میں نے کہا بھٹی یار تجھے ایک راز کی بات بتاؤں !!
بھٹی جو بیگم کے حملے کے بعد نڈھال اور شرمندہ بیٹھا تھا میری طرف دیکھ کر بولا پروفیسر یار بتا !

میں بولا : غیر متاثر شدہ بیوی کیساتھ خاوند کو زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے، بیوی سمجھتی ہے اس نکمے نکھٹو کو کوئی کیا کرے گا،
جبکہ خاوند سے متاثر شدہ بیوی تو اپنے خاوند کے معاملہ میں زیادہ حساس ہوتی ہے اس پر کڑی نظر رکھتی ہے کہ کہیں کوئی دوسری عورت اسے پھنسا ہی نہ لے۔
بھٹی جو بڑے غور سے میری بات سن رہا تھا منہ بنا کر بولا : پروفیسر مجھے حوصلہ دینے کی بجائے تم بھی تو میری بےعزتی ہی کر رہے ہو۔
میں بولا : بھٹی پوری بات تو سُن لیا کر،

غیر متاثر شدہ بیوی کے خاوند بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ اس آزادی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور موقع پاتے ہی دوسری شادی کر گذرتے ہیں،
بھٹی کی باچھیں کھل گیں مسکرا کر گانے لگا

Advertisements
julia rana solicitors london

دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے
دور تک نگاہ میں ہیں گل کھلے ہوئے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply