ہم معذرت خواہ ہیں ۔۔۔سلیم مرزا

ان زمانوں کی بات ہے، جب فیس بک اور وٹس ایپ کا اتنا کھلواڑ نہیں تھا۔کال کے نائٹ پیکج چلتے تھے۔ان دنوں ہم بھی چند طرح دار آوازوں کے اسیر، رات بھر کیا کھایا؟ کیا پہنا ؟اور فرض کرو، کھیلتے تھے ۔
بقول شاعر
رات رات بھر چھت پہ مٹی ڈالی ہے،
دیواریں کچی تھیں، گھر تو اپنا تھا۔۔۔

چنانچہ اپنے گھر رہتے ہوئے ، ساری رات کسی دوسرے کے بستر میں کروٹیں بدلتے،گھنٹےگھنٹے بھر کے پیکج بس سائز کے اتار چڑھاؤ میں گزر جاتے،کیا دن تھے ایک کان پہ موبائل اور پچھواڑے چارجر لیے، اسلام آباد میں بیٹھ کر ٹنڈو الہ یار کے کسی گاؤں میں روشنی پھیلاتے ۔
“میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے”۔۔

کبھی کبھی تو تین اور دو ھک پوچھنے کے چکر میں بیٹری مخالف سمت سے بھی جواب دے جاتی ، اس دورانیہ میں کسی اور سے پیمپرز کے ریٹ پوچھتے، جو آلویز غلط ہوتے۔ کیونکہ اس نے کون سا خود خریدا ہوتا تھا۔۔کساد بازاری کے باعث اکثر سائز غلط بتائے جاتے ، جو چیز کل چھتیس کی تھی آج چالیس پہ چلی جاتی اور چالیس والی بتیس پہ مگر کبھی گلہ نہ کیا۔
مگر ایک رات یوں ہوا کہ پانچ سو کا بیلنس کروا کر شاداں، اور فرحاں کا تصور لیے کمرے میں پہنچا،اور دوگھنٹے کا ایک پیکج بھی کروایا ۔
بات کسی کی جوانی تک ہی پہنچی تھی کہ بیلنس منہ کے بل جاگرا ۔۔موبائل کھڑکا، بجا کر دیکھا،ایک پھوٹی کوڑی تک نہ تھی،میری تو خیر تھی مگر پتوکی میں کوئی اَدھ مَرا پڑا تھا۔
میں نے ہیلپ لائن پہ کال کی ۔ قریباً آدھ گھنٹہ اشتہارات کے بعد ایک محترمہ ملیں ، ماجرا غم سنایا اور کھلی ڈکیتی بتائی۔
انہوں نے ہولڈ کروا کر ٹوں ٹاں کی آوازیں منہ سے یا کسی اور جگہ سے نکالیں۔۔پھر بتایا کہ کمپیوٹر یا سسٹم وغیرہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، ہم کبھی چیک کریں گے، فی الحال آپ کا سیاپہ فارورڈ کر دیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں، ٹھنڈ میں مخالف فریق کا کمبل تک اتار آیا ہوں اور باقی بھی۔ ۔
“کہیں اس کو سردی لگ گئی تو”؟
اخیر ایک بات سمجھ میں  آئی۔۔۔
پھرہیلپ لائن پہ کال کی،پھر وہی اشتہارات،  جن سے مجھے کیا کسی کو بھی ذرا رغبت نہیں تھی۔
میری اپنی اشتہا سوا نیزے پہ تھی۔ ۔اخیر آپریٹر ملا،۔
حسبِ سابق وہی ڈرامہ، ٹوں ٹاں، سسٹم چیک کر ے گا، دیکھیں گے، ہو گا، پیکج کون سا ہے، کون سا کروایا ؟
میں نے کہا” بات سن او سیانے ،
جس طرح تم کال کرتے وقت کہتے ہو ناں کوالٹی انشورنس کیلئے آپ کی کال ریکارڈ کی جارہی ہے، ویسے ہی میں نے تمہاری اور تم سے پہلے والی کی آواز کی ریکارڈنگ کر لی ہے، اگر دو گھنٹے میں تم نے ،تمہارے کمپیوٹر اور سسٹم وغیرہ نے، جو بھی تمہارا “لچ ہے ” چیک کر کے میرے پیسے واپس نہ کیے تو میں یہ ریکارڈنگ جیو نیوز کو دے دوں گا، پانچ سو میں چینل پہ لائیو آنا بُرا سودا نہیں “۔
یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔۔
پندرہ منٹ بعد میرے نمبر پہ نو سو سترہ روپے آگئے۔اور اس کے پانچ منٹ بعد، ایک نہ سمجھ آنے والے نمبر سے کال آئی
“کمپیوٹر کو چیک کر کے آپ کے اس ماہ کے بقایا جات آپ کو بھیج دیے گئے  ہیں، امید ہے آپ ہماری سروسز سے مطمئن ہوں گے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply