ایک خواجہ سرا کے ساتھ ملاقات۔۔۔۔۔ محمد حسین آزاد

اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ انسان اشرف المخلوقات اور پھر مسلمانوں میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔کوئی بڑا متقی و پرہیزگار ہوتا ہے تو کوئی دین ودنیا سے غافل، کوئی بڑا عالم و عاقل تو کوئی مجھ جیسا گناہ گار۔ لیکن یہ بات اٹل ہے کہ مکمل کوئی نہیں ہوتا۔ غلطی و کوتاہیاں سبھی سے ہوجاتی ہے۔ اب میں ایک ایسے نوجوان کی کہانی لکھنے جا رہا ہوں جو پانچ وقت نماز پڑھتا ہے،تلاوت کلام پاک کرتاہے،عالموں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، تبلیغ میں وقت لگاتا ہے مطلب یہ کہ دین کے ساتھ اس کا گہرا لگاؤ ہے۔اس نے مجھے نام لکھنے سے منع کیا ہے۔ اس نے خود اپنی کہانی مجھے بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سب لوگوں کو اپنی کہانی سنانا چاہتا ہے تاکہ لوگ اللہ و رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنے بچوں کو ایسی غلطیوں سے بچائے رکھیں جن کا وہ خود مرتکب ٹہرے ہے، پر وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ ایک دیندار شخص ہے اور معاشریہ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔اس لیے وہ لوگوں کے ساتھ اپنے برے تجربات شیئر نہیں کرسکتے۔ میں نے یہ ذمہ داری لیتے ہوئے اس کی کہانی اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ کہانی آپ بیتی کی شکل میں ملاحظہ فرمائے۔
” جب میں نے وہ دیکھا تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوئی۔ اس کے پاس جانا چاہا مگر جا نہ پایا۔کیونکہ مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ کسی دوسری عورت   کے پاس جاؤں۔ اور لوگوں کا بھی ڈرتھا۔وہ خود بخود ہمارے پاس آئی  تو میری خوش فہمی دور ہوئی کہ وہ لڑکی نہیں بلکہ ایک خواجہ سرا ہے۔لیکن مجھے اس پر اتنا پیار آیا جتنا آج تک کسی پر نہیں آیا۔اور اس کی وجہ اس کا  لباس اور ناز و ادا  تھی ۔ میرے ایک دوست نے اسے چھیڑنے کی کوشش کی مگر میں نے اپنے دوست کو ڈانٹا اوراسے چھیڑنے سے منع کیا۔اس لئے اس خواجہ سرا نے بھی مجھے خاص لفٹ دی۔میں بھی خوشی سے پھولے نہ سماتاکہ بات تو بن گئی۔ اور بات بن بھی گئی۔ میرے دوست نے بھی مجھ پرہنستے ہوئے کہا بھائی یہ لوگ تو ہوتے ہیں چھیڑنے کے لئے، پر میں نے مولوی بن کر ان سے کہا کہ انسانوں کو چھیڑتے نہیں، ان کی عزت کی  جاتی  ہے۔ ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا،”وہ کہاں  کے انسان ہیں، وہ تو خواجہ سرا ہیں“۔
عصر کی نماز پڑھ کر باہر سیڑھیوں پر بیٹھ کر انتظارکرنے لگا کہ کب وہ اپنے کمرے سے نکلے گی۔وہ کمرے سے نکلتی ہوئی ایک گانا گنگناتے ہوئے ہماری طرف چلی آئی۔ اس نے مجھے چھیڑنے کی کوشش کی جو مجھے شرم کے ساتھ ساتھ مزہ بھی آرہا تھا۔میں نے اس کے  حسن کی بڑی تعریف کی تو اس نے مجھے اپنا نمبر بھی دیا اور کہاں کہ رات کو فون کرنا۔ اب میں رات کے  انتظار میں تھا کہ رات کب آئے  گی۔ہم نے انار کلی کے دس چکر لگائے مگر رات نہیں آئی ۔ جب رات نو بجے اسے فون کیا تو اس نے کہا، ”ارے مجنون صاحب! یہ تو شام ہے، میں نے رات کو فون کرنے کا کہا ہے“۔
میں رات کے نامعلوم وقت کے لیے انتظار میں بیٹھ گیا اور ٹھیک ڈیڑھ بجے اس نے خود فون کرکے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ مجھے شرم بھی آرہی تھی اورحیران بھی تھا کہ کل تک میں خواجہ سرا کے  نام سے نفرت کرتاتھا، آج اس کے ساتھ ،اس کے کمرے میں   بیٹھا ہوں۔ میں نے اس کے ساتھ تقریباََ پندرہ منٹ ملاقات کی۔میں وہاں سے جانا ہی نہیں چاہتا تھا پر اس نے مجھے زبردستی وہا ں سے نکلنے کو کہا۔ میں وہاں سے تو نکلا مگر خواجہ سراؤں کے ساتھ میرا  لگاؤ اب شروع ہوا  اور مختلف جگہوں پر ان سے ملنے چلاجاتاجو بڑی رسوائی کا سامنا ہوتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مجھے خواجہ سراؤں سے محبت ہوگئی تھی۔ مگر بڑی وجہ یہ تھی کہ ہر انسان کی اپنی خواہشات ہوتی ہیں ۔ میں بھی ایک انسان ہو ں اور خود پر کنٹرول بھی تھوڑا   بہت ہے مگر جب ایسی قسم کے حالات ہوں  تو پھر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے میں ان غلط اور غلیظ راستوں پر چل پڑا۔ معاشرے میں میری عزت ختم ہوئی اور لوگ مجھے حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اور ایک میں تھا کہ عادت سے مجبور کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آتا تھا۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا  فضل  ہوا ،میں نے ان غلط کاموں سے توبہ کرلی۔ لیکن اب مجھے آج کے نوجوانوں کی بڑی فکرہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors

قارئین! یہ ایک دوست کی کہانی تھی جس نے یہ بھی کہا کہ اس نے پچیس سال کی عمر تک اپنے آپ پر کنٹرول رکھا تھا۔ وہ تو حالات کی وجہ سے غلط راستوں پر گیا مگر  مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے ماحؤل میں بچوں کو کیسے ان غلیظ کاموں سے بچایا جائے ،اس کے  لیے ضروری ہے کہ بچہ،بچی جب بالغ ہوجائیں تو ان کے نکاح کی فکر کی جائے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے، ”نکاح سنت ہے“۔ ۔ اگر ہم اپنے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں  تو ہمارے نوجوان نسل غلط راستوں پر نہیں چل  گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ایک خواجہ سرا کے ساتھ ملاقات۔۔۔۔۔ محمد حسین آزاد

Leave a Reply