فلک بوس عمارتوں کا جنگل ( کینیڈا کتھا )۔۔۔۔۔۔رضوانہ سید علی

براعظم شمالی امریکہ کا ملک کینیڈا ایک بہت بڑا ملک ہے جو گھنے جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے ۔ جھیلوں ، دریاؤں اور آبشاروں سے پٹا پڑا ہے ۔ جھیل انٹاریو جس کے شمال مغربی کنارے پہ ٹورنٹو آباد ہے ، اس قدر بڑی ہے کہ اس پہ سمندر کا گمان ہوتا ہے ۔ فطرت نے تو پوری دنیا ہی حسین ترین بنائی ہے پر شہروں کی خوبصورتیاں تو انسانوں کی کاریگری کا کمال ہوتی ہیں ۔ اقبال نے کہا تھا کہ مالک ! تونے جنگل بنائے تو انسان نے گلشن بنا لیے ۔ تو نے رات بنائی تو انسان نے چراغ بنا لیے ۔ مطلب مقابلہ نہیں بلکہ ستائش ہے کہ انسان تیری بنائی ہوئی مخلوق ہے اور تو نے اپنی ہی صفات سے اسے یوں آراستہ کیا ہے کہ وہ تیری فطرت پہ چلنے کی کوشش کرتا ہے اور تیری حسین دنیا کو سنوارنے میں لگا رہتا ہے ۔ گو کہ یہ بھی حضرت انسان کا ہی کارنامہ ہے کہ وہ بنی بنائی چیزوں کو بگاڑنے میں بھی یدطولیٰ رکھتا ہے ۔ پر فطرت بھی تو اشیاء کے بناؤ اور بگاڑ میں مصروف رہتی ہے ۔

بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جو یونہی برسبیل تذکرہ درمیان میں آ گیا ۔ ذکر تو کینیڈا کا ہو رہا تھا کہ یہاں پہنچ کر جہاں فطرت انسان کو مبہوت کرتی ہے ۔ وہیں انسانی کارنامے بھی کچھ کم نہیں ۔ ان میں سر فہرست وہ فلک بوس عمارتیں ہیں جن میں گھس کر انسان خود کو طلسم ہوش ربا کا کردار محسوس کرنے لگتا ہے ۔ یہ فلک بوس عمارتیں تمام تر مغربی دنیا کا جزو لازم ہیں پرمیں تو وہیں کاذکر کروں گی ، جہاں دیکھ پائی ہوں ۔ پہلے کبھی ہم پڑھا کرتے تھے کہ ان بلند عمارتوں کو سر اونچا کر کے دیکھا جائے تو ٹوپی گر جاتی ہے ۔ پھر اختر ریاض الدین کا سفر نامہ پڑھا تو انہوں نے کہا کہ میں کنکریٹ کے یہ جنگل دیکھ کر سوچتی ہوں کہ اگر کبھی کوئی تباہی ہوئی تو ہزار ہا انسان بری طرح پھنس کر رہ جائیں گے اور موجودہ دور کے ایک نوجوان نے بے ساختہ کہا ۔ یہ ایک ایک بلڈنگ پوری ایک بستی کی مانند ہے اور ہر بستی اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتی ہے ۔ میں ان سب باتوں سے متفق ہوں ۔ انسان اپنی ٹوپی سنبھالتے ہوئے ، ناگہانیوں سے لرزاں ترساں جب کسی ایسی بستی کے صدر دروازے پہ قدم رکھتا ہے جو زمین پہ نہیں پھیلی بلکہ بادلوں کو چھو رہی ہو تو پہلا دروازہ آہٹ پاتے ہی خود بخود کھل جاتا ہے ۔

اب دوسرادروازہ ہے۔ ۔ موسم کی شدت کو روکنے کے لئے یہاں دہرے دروازے ہیں ۔ یہ دوسرا دروازہ کھولنے کے لئے آپ کے پاس چابی کاہونا ضروری ہے اور اگر آپ مہمان ہیں تو پھر فون پہ میزبان سے رابطہ کیجیے ۔ یہ مرحلہ طے ہوا تو اب لفٹ کا بٹن دبائیے اور جس منزل پہ اترنا ہے ، اسکا نمبر دبا دیجیے ۔ کچھ دیر بعد آپ تمام ضروریات سے مزین ایک ایسے اپارٹمنٹ میں موجود ہوں گے جو آپ کو موسم کی تمام سرد مہریوں اور چیرہ دستیوں سے محفوظ و مامون رکھنے کا ضامن ہے ۔ اسکے کشادہ دریچوں سے آپ اجڑے پجڑے پیڑوں کو سرد ہواؤں کے تھپیڑے کھاتے دیکھیں ، ہوا کو زخمی ریچھنی کی طرح چیختا چلاتا پائیں ، عرش کے چرخے سے کت کر گرتی روئی جیسی برف کی نرم نرم پونیاں دیکھیں یا گرجتے برستے طوفان باد باراں کے ساتھ کڑکتی بجلی کا نظارہ کریں یا پھر آفتاب کے جلوؤں اور ماہتاب کی کرن پاشیوں سے لطف اندوز ہوں یا پھر پوری دنیا کو سفید لحاف کے نیچے چھپا دیکھ لیں، پر آپ اپنے نرم وگرم ٹھکانے میں ہر طور خود کو بحفاظت پائیں گے ۔ خواہ باہر درجہ حرارت منفی دس یا بیس ہی کیوں نہ ہو ۔ ہاں اس عافیت کدے سے نکلنے کے لئے آپ کو اس قدر ملفوف ہونا پڑے گا گویا آپ خلاء میں جا رہے ہیں اور یہی اس خطے کی ایسی جان لیوا مشقت ہے جسےدیکھ کر ہم گرم علاقوں کے باسیوں کی جان جاتی ہے ۔ جبکہ یہاں رہنے والے اس سے ذرا بھر نہیں گھبراتے اور موسم کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو ۔ یہاں کاروبار حیات لمحہ بھر کونہیں رکتا ۔ یہی یہاں کی طوفانی ترقی کا راز ہے ۔ ان عمارتوں میں گرم پانی، اور مناسب درجہ حرارت کا بندوبست اسقدر اعلیٰ ہے کہ ہر بلڈنگ سے بھاپ کے بادل اڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔ صفائی کا بندوبست بھی عمدہ ہے اور اس کا بوجھ صرف انتظامیہ پہ ہی نہیں بلکہ ہر گھر بھی اس کا ذمہ دار ہے۔ لانڈ ری ، جم اور بعض میں نہانے کے تالاب کے علاوہ اور بھی بہت سی سہولتیں موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر عمارتوں میں عام آدمی رہتے ہیں جو دولت مند نہیں بلکہ زندگی گزارنے کے لئے کڑی محنت کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دیکھ کر اپنے وطن کے وہ لوگ بے اختیار یاد آتے ہیں جو خط غربت سے کہیں نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی تو نہیں ۔ بات تو صرف سلیقے اور حسن انتظام کی ہوتی ہے جس سے ہم نجانے کیوں محروم ہیں ، پر نجانے کیوں اچھے بھلے جانتے بوجھتے ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو پھر کیا کیا جائے ؟ سوئے ہوئے کو تو کوئی جگا بھی دے اب جاگتے کو بھلا کون جگائے ؟۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply