ٹین ایج ڈپریشن اور زندگی کا مقصد ۔۔ ۔ محمود فیاض

بخار کی حالت میں، دوائیوں کے زیر اثر ، جب مجھے کچھ نہیں سوچنا چاہیے تھا ،میرا دماغ ہزاروں سوالوں کا چھتا بنا ہوا تھا۔ سوال شہد کی مکھیوں کی طرح میرے سر میں بھن بھن کر رہے تھے۔ ایک بان کی چارپائی پر آدھا دروازے سے اندر آدھا باہر لیٹے ہوئے میں اپنی زندگی کو بہت بے مصرف اور فضول سمجھ رہا تھا۔ آج عشروں بعد مجھے پتہ ہے کہ وہ میرا پہلا ٹین ایج ڈپریشن تھا، تب بالکل اندازہ بھی نہیں تھا۔

اس رات ، مجھے ٹائیفائڈ ہوئے ایک ہفتہ ہو چلا تھا ، جب تیز آندھی اور بارش نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ہمارے پانچ مرلے کے گھر کے مختصر صحن سے پانی ، ہوا کےتھپیڑے سے پھوار کی طرح برامدے میں آ رہا ہے۔ میری ماں اور بہنوں کو افراتفری لگی ہوئی تھی، وہ بارش تیز ہونے سے پہلے ہر بھیگنے والی چیز اٹھا کر اندر لا رہی تھیں۔ میں بخار میں تپتا ہوا، برامدے میں ہی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ بخار کی تپش میں اگست کی وہ بارش اور ٹھنڈی ہوا میرے لیے غنیمت تھی۔ میں اپنے بخار، اور اپنے اردگرد سے بے نیاز اپنے اندر اٹھنے والے سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہا تھا۔ جواب نہیں مل رہے تھے اور مجھے اپنی زندگی فضول لگ رہی تھی۔

میں اپنی زندگی میں کیا کروں گا؟ کیا میں کر پاؤں گا؟ اتنی بڑی دنیا ہے، میں اس میں کیا کر سکتا ہوں؟ اچھا فرض کرو، میں نے کچھ کر بھی لیا، کچھ بن بھی گیا تو کیا وہ کافی ہو گا؟ یہ تھے چند سوال ،ان ہزاروں سوالوں میں ،جو اس رات میرے دماغ میں چل رہے تھے۔ میری عمراس وقت بارہ تیرہ سال تھی اور مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ایسے سوالات ہر ٹین ایجر کے دماغ میں چلتے ہیں، اور اکثر اوقات ڈپریشن کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ٹین ایج یعنی لڑکپن کی عمر ایسی ہوتی ہے جب بچپنے کی باتوں سے نکل کر انسان اپنے اردگرد کے ماحول کا سنجیدگی سے جائزہ لیتا ہے اور اپنا ایک مقام طے کرتا ہے۔ اپنے کچھ ٹارگٹ بناتا ہے۔ زندگی میں کچھ کرنے کا سوچتا ہے۔ اس عمرمیں جسمانی تبدیلیوں میں بھی خاصی تیزی آجاتی ہے، اور ان تبدیلیوں کا اثر بھی انسان کے دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں جب کوئی نوجوان اپنی زندگی اور اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتا ہے تو اسکو اپنی ہستی ایک فضول محض شے لگتی ہے۔ اتنی بڑی دنیا، اربوں لوگ، ہزاروں شعبے، ہر شعبے کے ہزاروں ماہرین، انکی ایجادات، غرضیکہ اسکو لگتا ہے وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اسکے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پچھلی ایک دو دہائیوں میں دنیا تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ آج کے نوجوان کو اپنی دنیا کے متعلق ہر قسم کی معلومات بہت آسانی سے اور بہت جلد مل جاتی ہیں۔ اور اسی تیزی سے وہ ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں ڈپریشن کے زیادہ تر شکار نوجوان افراد ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں انکی بڑھتی ہوئی تعداد ایک تشویشناک صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں بھی اس مرض کے شکار نوجوان افراد میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر مناسب آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے افراد کا علاج یا مدد نہیں کی جارہی۔ انڈیا میں کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے سروے کروائے ہیں، جن میں پڑھائی سے متعلق پریشر کی وجہ سے، مقابلے کی دوڑ اور گریڈ لینے کے رجحان کی وجہ سے اسکول کے بچوں میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کیا ہم اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں ہماری موجودہ نسل کو کس قدر تناؤ اور دباؤ میں اپنی تعلیم حاصل کرنا پڑ رہی ہے؟

تو آخر اسکا علاج یا حل کیا ہے؟ کیا ہم ان ٹین ایجرز کی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ معمولی ڈپریشن زندگی کا حصہ ہے، اور ہر انسان زندگی میں اکثر اوقات تھوڑے یا زیادہ وقت کے لیے ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر ایک ٹین ایجر چونکہ زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے واقف نہیں ہوتا، اور اسکے لیے ڈپریشن کی یہ کیفیت بھی نئی ہوتی ہے۔ اسلیے اکثر نوجوانوں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی عارضوں کو کسی بھی لحاظ سے قابل توجہ بیماری نہیں سمجھا جاتا۔ اور اسکے علاج کے لیے زیادہ کوشش بھی نہیں کی جاتی۔
سب سے اہم تو یہ ہے کہ ہم ڈپریشن کے متعلق آگاہی کے لیے میڈیا اور اسکولوں میں باقاعدہ پروگرام شامل کریں۔ حکومتی اور نجی سطح پر نوجوانوں کو اس حوالے سے بہتر معلومات فراہم کی جائیں۔ سوشل میڈیا کو بھی اس کے لیے استعمال کیا جائے۔ او ر مفید معلومات ویڈیوز کی شکل میں سوشل میڈیا پر شئیر کی جائیں۔

والدین اور معاشرے کا کردار اس معاملے میں بہت اہم ہے۔ اپنے نوجوانوں کو ایک صحتمند معاشرہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں پر اونچے سے اونچا گریڈ لینے کا دباؤ نہ ڈالیں، نہ ہی ان سے یہ توقع رکھیں کہ ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بن کر “ملک و قوم کی خدمت کرے گا” ۔ ہم اپنے بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ ہر انسان کی زندگی کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے جو ہر دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے، اسلیے انکو کسی کے مقابلے میں گریڈ لینے کی بجائے اپنے رجحانات کے حساب سے تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور اپنی زندگی کا مقصد متعین کرنا چاہیے۔

خوش قسمتی سے ، پاکستان کے نوجوانوں کو ایک ایسا فائدہ حاصل ہے، جو ٹین ایج ڈپریشن میں بہت فائدہ دیتا ہے، اور جسکی مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں شدید کمی ہے۔ وہ ہے ایک بزرگ و برتر خدا کی ذات پر ایمان۔ انسان کو جب اپنی ہستی بے وقعت اور بے حیثیت لگتی ہے، تو واحد خدا کا تصور ہے جو اس پوری کائنات میں اسکو تسلی اور سکون دیتا ہے۔ جن ممالک میں مذہب اور خد ا پر یقین کم ہے، وہاں نوجوانوں کو ڈپریشن کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

تو دوستو! میں اس رات اس چارپائی پر بخار میں پڑا اپنی زندگی کا مقصد سوچتا رہا، اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ تنگ آ کر میرے دماغ نے مجھے ایک راہ سجائی۔ میں نے خود سے کہا، کہ میری زندگی سے کسی کوکوئی فرق پڑے یا نہ پڑے، میرے ماں باپ کو تو پڑے گا ناں؟ اسلیے میں اپنے ماں باپ کے لیے اپنی زندگی وقف کر دوں گا۔ جو بھی کروں گا، انکی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کروں گا۔ بس یہی میری زندگی کا مقصد ہے۔ میرے اردگرد آتی جاتی میری ماں اور بہنوں کی آوازیں میرے کانوں میں آ رہی تھیں، اور میں آنکھیں بند کیے سکون سے گہری نیند میں چلا گیا۔

آپ سب کو بھی میری یہی صلاح ہے۔ جب بھی آپ کو اپنی زندگی بے وقعت لگے۔ کبھی یہ مت سوچیے کہ آپ ناسا کے اگلے مریخ مشن پر جائیں گے تو آپ کی زندگی کا مقصد پورا ہوگا۔ بلکہ اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھیں، اور جنکی زندگیوں میں آپ کی وجہ سے سب سے زیادہ فرق پر سکتا ہے، انہی کے لیے کچھ کرنے کا خیال آپ کو ڈپریشن سے بچا لے جائیگا۔

رب کائنات، آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(محمود فیاض: لاہور میں مقیم ، نوجوانوں کے لیے زندگی ، محبت اور خوشی پر لکھتے ہیں۔ اب مکالمہ پر بھی لکھیں گے۔ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply