انسانم آرزوست مصنف ڈاکٹر محمد امین/مرتب سخاوت حسین(مجلس30)

آج شام ایسے لگا جیسے اندھیرا وقت سے پہلے چھانے لگا۔مجلس پر گہری خاموشی چھائی رہی کہ اتنے میں ایک طالب علم بہت سی کتابیں اٹھائے مجلس میں آیا۔آتے ہی وہ سب سے مخاطب ہوا۔ میں آپ لوگوں کی شہرت سن کر آیا ہوں۔ دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے۔انسان نے بہت سہولتیں حاصل کر لی ہیں۔ اس نے خلاؤں کو تسخیر کر لیا ہے۔ علم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اور یہاں پرانی فرسودہ باتیں ہوتی رہتی ہیں۔
ابوالحسن! بیٹھ جاؤ۔ اور دھیان سے سنو۔تم ٹھیک کہتے ہو۔لیکن بتاؤ کیا تم خوش ہو؟ کیا تم مطمئن ہو؟ کیا تمہیں تمہارے خوابوں کی تعبیر نظر آتی ہے۔ سوچ کر جواب دو۔طالب علم سوچ میں گم ہو گیا۔ اور فضا میں گھورنے لگا۔اس نے کبھی ان سوالوں کے بارے نہیں سوچا تھا۔ گھبرا کر بولا۔ابوالحسن میں نے کبھی ان سوالوں کے بارے میں نہیں سوچا۔
بیٹھ جا اور دھیان سے سن۔پچھلے پانچ سو برسوں میں انسان نے ترقی کی ہے۔جمہوریت حاصل کی ہے۔ آزادی اور حقوق حاصل کیے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت میں ترقی کی۔ فاصلے گھٹے رابطے بڑھے۔ ہر طرح کی معلومات انسان کی دسترس میں آئیں۔ خلا کو تسخیر کیا۔ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔مگر وہ اپنے آپ کو نہیں جانتا۔یہی اس کی غلطی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھول گیا۔
اب یہ نظام ناکام ہو چکا ہے اور گرنے والا ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔دنیا میں بے گھر لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔قحط اور فاقوں سے مرنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ جنگوں میں کتنے لوگ مارے گئے اور مارے جا رہے ہیں۔ یہ ترقی سونے کا پنجره ہے۔جو اب ٹوٹنے والا ہے۔ہم صرف یہ کہتے ہیں انسان کا خیال رکھو۔اس کو اہمیت دو، اس کی تکریم کرو۔اور بس۔
یہاں پر مجلس برخاست ہوئی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply