اصلاحی بیانات از پیر کرامت شاہ صاحب۔۔۔۔علی اختر

میرے پیر و مرشد (مرحوم ) کی ذات اپنے نام کی مانند کرامتوں کا مجموعہ تھی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ  جب جب کسی مرید نے مشکل وقت میں مرشد کو دل سے یاد کیا ، میرے کامل مرشد نے اسکی داد رسی فرمائی  ۔ راہ ِ خدا میں زندگی وقف کر چکے تھے سو دنیا اور اسکی جملہ اشیاء کو خاطر میں نہ لاتے ۔ سیلانی طبیعت پائی  تھی ،سو کہیں بھی ہفتہ پندرہ دن سے زیادہ قیام نہ فرماتے ۔ جہاں کا قصد کرتے مریدین جوق در جوق وہاں مرشدی کی خدمت میں پہنچ جاتے اور کچھ ہی دن میں میلے کا سا سماں ہوتا ۔

کیونکہ پیر و مرشد کی زندگی کا واحد مقصد مریدین کی اصلاح تھی ،روز وعظ و نصیحت کی ایک لمبی نشست ہوتی ۔ ایک تو خدا نے مرشد کو زور ِ بیاں بھی معجزاتی عطا فرمایا تھا اور دوسرا مرشد کی علمیت جو بیان سنتا پھر زندگی تبدیل کیے ہی نشست سے اٹھا کرتا ۔ تقاریر فی البدیہہ ہوتیں یعنی لکھی ہوئی  نہ ہوتیں بس آمد ہوتی چلی جاتی ۔ تقریر اکثر حالات حاضرہ پر ہوتی اور علمی حوالوں سے بھرپور بھی ۔ مرشدی زمانے کے ساتھ چلنے والے صوفی تھے سو اکثر ہالی وڈ کی فلموں کے حوالے بھی تقریر کا حصہ ہوتے ۔ کبھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر سیر حاصل گفتگو ہوتی تو کبھی تاریخ کے ان مخفی حوالوں پر بھی بات ہوتی جو تاریخ دانوں نے دانستہ عوام الناس سے چھپائے ہوتے لیکن صاحب نظر مرشد کی نگاہ سے کہاں کچھ چھپ سکا ہے ۔ کہتے ہیں کے امریکہ میں علمِ  طب کے ایک پروفیسر کے سامنے جب حضرت کے اس اصلاحی بیان کے نوٹس رکھے گئے جس میں مرشد نے نومولود کی دماغی ساخت تفصیل سے بیان کی تھی تو وہ پروفیسر پہلے تو حیران ہوا پھر کچھ پریشان ہوا اور جب اسے کامل یقین آگیا کہ  یہ بیان ایک معمولی دیہاتی آدمی کا ہے جس نے آج تک علم ِ طب تو کُجا، سول ہسپتال کی عمارت بھی نہیں دیکھی تو وہ پروفیسر اپنی ساری کتب و سرٹیفیکیٹ وغیرہ نظر آتش کر کے ٹنڈو الہ یار شفٹ ہوگیا جہاں بقیہ زندگی مرشد کی خدمت کرتے اور سیہون میں چلہ کشی کرتے گزار دی ۔

ویسے مرشد کے بعض بیانات کئی  بار نادانست ہ مشکلات کا باعث بھی بن جاتے ،جیسے جب کسی مرید نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹس کو مرشد کا معاشی سدھار و استحکام سے متعلق بیان سنایا تو انہوں نے یونیورسٹی پر ہرجانے کا کیس کر دیا ۔ انکا کہنا تھا کہ  سالوں تک الٹی سیدھی کتابیں پڑھا کر ، فیسیں بٹور نے کے بعد ہمارا وقت اور پیسہ ضائع کر کے آج وہ پولٹری والی تھیوری کیوں پڑھائی  گئی  جس کا  ہر  جملہ تمام معاشی مسائل کا شافی علاج ہے ۔ یہ نظریہ پہلے ہی دن پڑھا  کر ہمیں فارغ کردیا جاناچاہیے  تھا ۔

جیسا کہ  اوپر وضاحت کی گئی  ہے کہ پیر و مرشد کی ذات بابرکت کرامات کا مجموعی تھی سو جہاں اصلاحی بیان ہوتا جا بجا کرامتوں کا ظہور بھی ہوتا ۔ وعظ  فرماتے تو بڑے بڑے گناہ گار تائب ہو جاتے ۔ ظالموں کو للکارتے تو وہ ہتھیار آپکے قدموں میں ڈھیر کر دیتے ۔ ایک موقع پر قرض کے مضمرات پر بیان فرمایا تو بستی کے تمام مقروض افراد کا قرض غیب سے ادا ہو گیا ۔ ایک بار جنگ کے موقع پر بیان فرمایا تو دشمن کے ٹینکوں میں آگ بھڑک اٹھی اور فوج نے سرنڈر کر دیا ۔ ایک موقع پر قحط سالی سے متاثرہ ایک گاؤں میں بیان فرمایا ۔ بیان کے بعد لوگ آستانے سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں، خشک کھیت ہرے ہو چکے تھے ۔ مریل جانور ناصرف فربہ ہو چکے تھے بلکہ گائے بکریاں بچے بھی دے چکی تھیں ۔ کئی  موقوں پر دوران ِ بیان بند فیکٹریاں کراماتی طور پر چل جاتیں ۔ سڑکیں خود بخود بن جاتیں ۔ ڈاکو لوٹ کا مال سامنے دھر کر جنگلوں میں بھاگ جاتے ۔ نجی جیلوں میں بند قیدی آزاد ہو جاتے ۔ بجلی کے بل آدھے ہو جاتے ۔ غرض کرامات کا وہ ظہور ہوتا کہ لوگ حضرت کو زبردستی اپنے گاؤں لیجا کر بیانات کرواتے کہ  معجزاتی خوشحالی و ترقی محض بیان کی صورت میں ہی ممکن تھی ۔

یہاں مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  بعض کم ظرفوں نے اس صاحب ِ کرامت پیر کو بھی نہیں بخشا تھا ۔ ایک موقع پر مریدین کے سامنے پیر صاحب سے بغض رکھنے والے ایک کمینے نے پھبتی کسی کہ “اگر باتوں سے بچے پیدا ہوتے تو آج سب سے زیادہ اولاد تمہارے مرشد کی ہوتی “۔ مریدین مشتعل ہو گئے اور قریب تھا کہ  اسکا سر قلم ہو جاتا ،پر عین اسی دوران میرے مرشد وہاں پہنچ گئے ،ملزم کا بیان سنا۔ ۔ مسکرائے اور فرمایا “اسے چھوڑ دو یہ صحیح کہتا ہے ” ۔ ملاحظہ فرمائیں درگزر کا کیا عالم تھا میرے مرشد کا ۔

ایک اور موقع پر جب ایک حاسد نے بدتمیزی کی انتہا کر دی ۔ مرشد کو صرف باتیں بنانے اور کارکردگی نل بٹا سناٹا ہونے کے طعنے دیئے، سخت سُست اور “منہ کا مجاہد” کہہ  کر تضحیک کی ۔ یقین مانیے اس وقت بھی مرشد نے کمال درگزر سے کام لیا ۔ مریدین سے فرمایا کہ  “اسے کچھ نہ کہو ۔ یہ صحیح کہتا ہے ۔ ہم صرف باتیں ہی تو کرتے ہیں ۔ بلکہ صرف باتیں ہی کر سکتے ہیں ۔ باقی کام کی  ذمہ داری ہم نے اوپر والے کو دے رکھی ہے ۔ وہ جانے اور اسکی مخلوق ۔ ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا ” ۔

کیا کہیے کہ  اب نہ وہ صوفی رہے اور نہ انکی باتیں ۔ اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : راقم نے یہ مضمون اپنے مرشد کی شان بیان کرنے لیے لکھا ہے، کسی  بھی شخصیت یا جگہ سے مشابہت محض اتفاقی ہوگی ۔ اسکے علاوہ اقوام متحدہ  کی جنرل اسمبلی میں عوامی امنگوں کے عین مطابق بہترین تقریر کرنے پر مصنف جناب محترم وزیر اعظم صاحب کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت اور مبارکباد پیش کرتا ہے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply