• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مطالعہ پاکستان میں ہم نے کیا پڑھا؟۔۔۔۔یاسرپیر زادہ

مطالعہ پاکستان میں ہم نے کیا پڑھا؟۔۔۔۔یاسرپیر زادہ

اسکول میں مطالعہ پاکستان میرا پسندیدہ مضمون تھا اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِس میں نمبر بہت آسانی سے مل جایا کرتے تھے۔ دو قومی نظریہ، قائداعظم کے چودہ نکات، کانگریسی وزارتیں، تحریک خلافت، خطبہ الہ آباد، کیبنٹ مشن پلان اور نوزائیدہ مملکت پاکستان کو درپیش مسائل جیسے موضاعات اگر کوئی رٹ لیتا تو سو میں سے ستّر نمبر پکے ہو جاتے۔

جس قسم کا مطالعہ پاکستان ہمیں پڑھایا گیا اُس نے ہمارے ذہنوں میں کچھ ایسے سچے جھوٹے تصورات بٹھا دیے جن سے ہم برسوں تک پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ مثلاً مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں گاندھی جی کے بارے میں شاید ایک باب بھی نہیں تھا سو ہمارے دماغ میں گاندھی جی کا ایک عجیب و غریب امیج بن گیا، گاندھی ہمارے نزدیک ایک ایسا شخص تھا جو ہندوؤں کا لیڈر تھا اور چونکہ ہندو تھا اِس لئے مکار اور عیار تھا، گاندھی میں کرشماتی لیڈر والی کوئی ایک خوبی بھی نہ تھی، وہ فقط اپنی عیارانہ چالوں کی مدد سے سادہ لوح مسلمانوں کو بیوقوف بنا کر انہیں کانگریس میں رکھنا چاہتا تھا، وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ ہمیں قائداعظم جیسا کرشماتی لیڈر مل گیا جو بہترین سوٹ پہنتا تھا، فرسٹ کلاس میں سفر کرتا تھا، مہنگے سگار پیتا تھا اور جو اپنے وقت کا سب سے قابل بیرسٹر تھا۔ قائد نے گاندھی کی ہر مکاری کا منہ توڑ جواب دیا اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا،وغیرہ۔

اُس وقت ہمیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ گاندھی جی بھی بیرسٹر تھے، یہ بھی کسی نے نہیں پڑھایا کہ گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے بھوک ہڑتال کی تھی اور یہ بات بھی کہیں بعد میں جا کر معلوم ہوئی کہ گاندھی جی کے قتل پر پاکستان میں سرکاری سطح پر سوگ منایا گیا اور قائداعظم نے بطور گورنر جنرل تعطیل کا اعلان کیا۔

اسکول کالج میں پڑھائے جانے والے نصاب نے ہمارے ذہنوں میں اور بھی طرح طرح کے تصورات راسخ کیے، مثلاً سیکولرازم ہمارے نزدیک لادینیت کا دوسرا نام تھا، ہم سمجھتے تھے کہ جو خود کو سیکولر کہتا ہے دراصل وہ لادین ہو چکا ہے۔

اسی طرح خود کو لبرل کہنے والا اصل میں شرابی ہے اور وہ ملک میں کھلے عام زنا کی ترویج چاہتا ہے، دنیا میں صرف مسلمان ایک ایسی قوم ہے جسے دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے باقی تمام قوموں کا فرض ہے کہ وہ محکوم بن کر رہیں مگر پریشان نہ ہوں کیونکہ ہم اُن کے ساتھ بہترین سلوک کریں گے۔

یہودیوں سے نفرت کرنا ویسے تو نصاب میں شامل نہیں تھا مگر نہ جانے کیوں جب ہمیں پتا چلا کہ ہٹلر نامی ایک شخص نے ستّر لاکھ یہودی مارے تھے تو ہمیں لگا کہ لیڈر ایسا ہی ہونا چاہئے۔

فاشزم کا زیادہ علم تو ہمیں نہیں تھا مگر جتنا تھوڑا بہت پتا چلا اُس کی روشنی میں یہی سمجھا کہ ریاست کے پاس ایسا ہی اختیار ہونا چاہئے کہ وہ عوام کی دائمی مسرت کی راہ میں حائل مخالف عناصر کو کچل کر رکھ دے۔ مجھے وجہ تو معلوم نہیں مگر نہ جانے کیوں اُن دنوں میرے دل میں ہر اُس شخص کے لئے نفرت بھر جاتی جو اِن خیالات کے مخالف کوئی بات کرتا یا ایسا کوئی نظریہ سمجھانے کی کوشش کرتا جو مطالعہ پاکستان کی اِن تعلیمات سے متصادم ہوتا، میری نظر میں ایسا شخص کافر اور غدار کہلائے جانے کے لائق تھا۔

وقت کے ساتھ میرے خیالات کیسے اور کس حد تک تبدیل ہوئے یہ قصہ پھر کبھی، فی الحال دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں ہماری قوم کے خیالات حیرت انگیز طور پرتبدیل ہوئے ہیں، جس دن سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا حصہ بنایا ہے یکایک ہمیں گاندھی جی کی تعلیمات اچھی لگنے لگی ہیں، ہم بھارت کو طعنہ دینے لگے ہیں کہ یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں جہاں کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، گاندھی جی تو ’’اہمسہ‘‘ کے قائل تھے۔

ہمیں یہ بھی یاد آ گیا ہے کہ گاندھی جی کو قتل کرنے والا آر ایس ایس کا رکن تھا، وہی آر ایس ایس جس کے نظریے کا نریندر مودی پرچار کرتا ہے۔ ہمیں سیکولرازم کا تصور بھی ٹھیک لگنے لگا ہے، اب ہم ہندوستا ن سے سوال پوچھتے ہیں کہ کہاں گیا تمہارا سیکولرازم، کیوں بی جے پی سرکار مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی پشت پناہی کر رہی ہے، کیسے آر ایس ایس کے غنڈے سیکولر ہندوستان میں دندناتے پھر رہے ہیں؟ اب ہمیں فاشزم کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے، آج ہم ہٹلر یا فاشسٹ طرزِ حکومت کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کیسے بھارتی کشمیر میں مودی سرکار نے فاشسٹ ہتھکنڈے اپنا کر اسّی لاکھ کشمیریوں کو دو ماہ سے کرفیو میں قید کر رکھا ہے۔

اب ہمیں آزادی اظہار کی قدر و قیمت کا بھی پتا چل گیا ہے، جب سے کشمیر میں میڈیا پر پابندیاں لگی ہیں اور انٹر نیٹ بند ہوا ہے، اُس دن سے ہم میڈیا کی آزادی کے بھی چمپئن بن گئے ہیں، بھارت میں جو پترکار، دانشور، لکھاری، اداکار یا سرکاری ملازم بھارتی ریاست کے جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ہماری نظروں میں وہ سچ کے داعی ہیں اور سچ کی آواز دبا کر مودی سرکار اپنے فاشسٹ ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔ ہمیں اچانک آزاد عدلیہ کی اہمیت کا بھی ادراک ہو گیا ہے۔

اب ہماری نظریں بھارتی سپریم کورٹ پر جمی ہیں کہ وہ فاشسٹ مودی سرکاری کے کشمیر میں کیے گئے غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے۔

بنیادی انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں اِس کا اندازہ بھی ہمیں گزشتہ دو ماہ میں ہوا ہے، اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ انسانوں کے ساتھ رنگ، نسل، عقیدے یا مذہب کی بنیاد کر فرق نہیں کیا جانا چاہئے، ریاست کو چاہئے کہ بلا تفریق اپنے شہریوں کو تمام بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے جبکہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ مودی سرکاری کشمیر میں کر رہی ہے وہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔

جمہوریت، سیکولرازم، لبرل ازم، فیڈرل ازم، آزاد میڈیا، عدالتیں اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی۔ یہ تمام تصورات اب ہمیں اچھی طرح سمجھ آگئے ہیں ،سب کچھ ہونا چاہئے مگر کیا صرف ہندوستان میں؟

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply