سر منڈی ہوئی عورت۔۔۔(7)ڈاکٹر ستیہ پال آنند

The Woman With Shaved Head

یہ نظم پہلے انگریزی میں اسی عنوان سے لکھی گئی اور شاعر کی انگریزی نظموں کی کتاب
میں شامل ہے۔ The Sunset Strands
………………………..
وہ بھی چپ رہتی تھی اکثر
میں بھی باتونی نہیں تھا
ُُپر ہمارا ایک ہی گاڑی میں روزانہ کا چکر
کار کی پچھلی نشستوں پر اکٹھا بیٹھنا
اور ریڈییشن کے عمل کے بعد
کینسر وارڈ سے دوبارہ گاڑی میں اکٹھے لوٹنا
۔۔۔۔شاید رفاقت کے لیے کافی نہیں تھا
پھر بھی ہم، وقفوں میں
کچھ کچھ سُست رفتاری سے
رک کر ، باتیں کرنے لگ گئے تھے
وہ تو گوری نسل سے تھی
اور میں ۔۔۔۔ اک ایشیائی
جس کو گورے لوگ ’پاکی‘ بھی کہا کرتے تھے اکثر
ڈرائیور جو ہم کو لے جاتا تھا، مخلوط النسل بوڑھا
بے ضرر سا، شاذ ونادر ہی ہماری گفتگو میں حصہ لیتا

اِس حرامی سر کے اندر پک رہے
سرطان سے کھلواڑ کرنا اتنا معمولی نہیں ہے ۔۔۔۔
ایک دن اس نے کہا اور اتنا کہہ کر
اس نے پھر چپ سادھ لی
میں بھی تھکن سے چُور سا خاموش ہی بیٹھا رہا،
لیکن مجھے کچھ نا موافق سی لگی
نا گفتنی سی
نوجواں خاتون کے منہ سے یہ مردوں جیسی گالی
کچھ دنوں کے بعد ہی میں جان پایا
باسٹرڈ  تو گفتگو کی نہج تھی
اک ثانیہ عادت کہ جس سے خود بھی وہ واقف نہیں تھی۔

روز کا معمول تھا دونوں کا
کینسر وارڈ تک اک ایمبولینس میں اپنے اپنے گھر سے جانا
وہ کرایو سرجری
اور میں شعاعی ریڈیائی تھیراپی کے واسطے ۔۔۔
پراسٹیٹ کینسر تھا میرا روگ ۔۔
اس کا عارضہ تھا سر کے اندر کینسر کا ایک پھوڑا۔

ایک دن میں نے کہا اس سے ذرا کھل کر
چلو ہم اپنے اپنے دُکھ بدل لیں
ادلا بدلی کر کے دیکھیں ۔۔
وہ ہنسی
پھیکی سی اک ایسی ہنسی جیسے دہانہ زخم کا کھل جائے
بولی،’’ ادلا بدلی آپ کر سکتے ہیں
میرے اس حرامی سر سے اپنے سر کی ، لیکن
میرے باطن میں تو کوئی مرد کا پرزہ نہیں ہے ۔

ہاں، ہنسا میں بھی۔ کہا
یہ صرف مردوں کا ہی پُرزہ ہے یقینا ًً،
میں ’حرامی‘ کہہ نہیں پایا کہ یہ آرائشی تعدیل تو

اس کے ہی طرزِ گفتگو کا حسن تھا، میرا نہیں تھا۔

کوکھ تو ہے میرے اندر بھی۔۔۔
مگر اس رحم مادر کی کبھی میں ادلا بدلی کر نہیں سکتی
کہ میں تو ایک عورت ہوں
مرا سارا اثاثہ تو یہی ہے ۔۔۔
اس نے شاید سچ ہی سمجھا تھا
مرے اس ادلا بدلی والے نا معقول فقرے کو سرا سر۔۔۔

دونوں ہم سرطان کے مارے ہوئے تھے
آتے جاتے ایمبولینس میں ایسی ہی دلچسپ باتیں کرتے رہتے۔

ایک دن اس نے کہا
یہ سر توخربوزہ ساہے ، باہر سے برابر ٹھوس
اندر سے مگر کچھ پلپلا، ڈھلمل سا
جیسے پھڑپھڑاتا قید میں پنچھی ہو کوئی۔
پراسٹیٹ کیا چیز ہے آخر؟ بتائیں۔

سوچ کر میں نے کہا،
یہ کارخانہ وہ ہے جوقدت نے مردوں کو دیا ہے
مادہ ِ تولید کی خاطر ۔۔۔۔۔

ـ’۔۔۔۔۔ مجھے یہ علم ہے ۔‘‘۔وہ ٹوک کر بولی

یہ کینسر سر کے اندر ہو کہ نیچے پیٹ میں
موذی حرامی ، مرد، عورت دونوں کا دشمن ہے، قاتل۔

ایک دن اس نے کہا
۔۔۔ وہ چاہتا تھا کاٹنے کے بعد اپنے بال اس کو پیش کر دوں ۔۔۔
میں نے اک رومال میں باندھے ہوئے وہ بال اس کو دے دیے تھے
۔۔۔بوڑھی کالی نرس مجھ سے پوچھتی تھی
کیوں دیے؟
میں نے تمہارے بال کاٹے تھے توان پر میرا حق تھا
میں تمہارے نام کا لیبل لگا کر پاس رکھتی
اپنی الماری میں ، میرے پاس کچھ ریکارڈ بھی رہتا تمہارا۔
اس حرامی کے لیے یہ بال میرے لیے  توضروری تھے ، مگر ۔۔۔
۔ وہ کہتے کہتے رک گئی تو میں نے پوچھا، اور کیا تھا جو ضروری تھا؟

وہ اک د م چیخ اٹھی’’۔۔۔ حاملہ تھی میں۔۔۔، مگر کہنے لگا، اس کو گرا دو۔۔۔
تم کو تو کینسر ہے اور بچے کو بھی گر کینسر ہوا تو
میں کہاں بھٹکوں گا کینسر کے شفا خانوں میں اس کو ساتھ لے کر؟
۔۔۔پورا ، پکا، چور تھا ،وہ اک حرامی
گالی دے کر جیسے ٹھنڈی ہو گئی، تو جھٹ سے بولی
’’اب یہ باتیں یاد کر نے سے بھلا کیا فائدہ ہے؟‘‘

تین دن پہلے بہت بے چین تھی، بولی
۔۔۔ جھمیلہ ہے کہ میری زندگی ہے
پاس بھی رہتی نہیں اب
۔۔۔اور جاتی بھی نہیں
بس ایک زندہ لا ش سی بیٹھی ہوئی ہے۔

میں نے اس کے کندھوں پر رکھی ہوئی
ساری صلیبوں کی اذیت
خود بھی جب محسوس کی ، تو بات بدلی
’’۔۔۔مادہ ِ تولید والی بات کو آگے بڑھائیں ۔۔۔؟‘‘

ٹوک کر اس نے کہا
۔۔۔ میرا کمینہ دوست مجھ سے یہ کہا کرتا تھا اکثر
۔۔۔مرد کے مادے میں یہ ننھے حرامی لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہیں
۔۔۔ پھرسب کلبلاتے، پراسٹیٹ کو پار کر تے
تیرتے ، آگے نکلتے ہیں تو
اندر تک پہنچنے کی سعی میں ایک رہ جاتا ہے باقی
۔ ۔۔ سچ نہیں کیا ؟

وہ ہنسی
صید ِ زبوں جیسی ہنسی
جس میں شقاوت ، یاس، بیزاری، سمٹ آئے تھے مل کر۔

مرد تو فیاض ہے، اکثر کہا کرتا تھا وہ ۔۔۔ اس نے بتایا ۔۔۔
’’ مرد دیتا ہے فقط ۔۔۔ لیتا نہیں کچھ ۔۔۔
اس حرامی کو یہ اندازہ نہیں تھا
ایک جرثومے کے بدلے ایک بچہ
خوبصورت ایک بالک، دُر ِ نا سفتہ
۔۔۔یہ عورت کا صلہ ہے

’’ٹھیک ہی کہتی ہو تم ۔۔۔ ‘‘

میں نے کہا اور اس کی جانب دیکھ کر چپ ہو گیا
۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔

تین دن ناغہ تھا
جب میں کار کی آواز سن کر گھر سے نکلا، وہ نہیں تھی
۔۔۔ کار خالی تھی۔
ڈرائیور نے کہا
اب تو اکیلے ہی چلیں گے آپ، وہ لیڈی نہیں ہے
۔۔۔ چل بسی کل رات، بے چاری ۔۔۔۔اکیلی تھی، کوئی وارث نہیں ہے‘
۔۔۔ پھر کہا ۔۔۔ ’’ہاں، یاد آیا
نرس کہتی تھی کہ اس کے پاس اک پیغام ہے
جو آپ کو دینا ہے اس نے”۔
.میں نہیں رویا مگر بوڑھا ڈرائیور آب دیدہ ہو گیاتھا۔

ایک پرچی سی تھما کر
نرس نے مجھ کو بنظر ِ غور دیکھا
جیسے میں ہی وہ حرامی ہوں
کہ جس کا تذکرہ اس نے کیا ہو گا ہزاروں بار اس سے۔

آج تک میں پڑھ نہیں پایا
فقط دولفظ جو وہ مرتے مرتے لکھ گئی تھی
مجھ میں ہمت ہی نہیں ہے!!

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نظم ان دس نظموں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر رکھی گئی ہے جنہیں انگریزی میں پوئٹری ا نٹرنیشنل میگزین نے 2011 عیسو ی  کی بہترین نظموں میں شمار کیا ہے۔،انگریزی سے اردو میں ترجمہ میرا اپنا کیا ہوا ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply