میرے مخاطب، میرے قارئین اور میری مشکل:۔ ۔ ۔ ۔علامہ امجد عباس

میں ایک مدت سے فیسبک (سوشل میڈیا) استعمال کر رہا ہوں. اپنے خیالات کے اظہار کا یہ بہترین ذریعہ ہے، لیکن اِس سلسلے میں چند مشکلات کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا جن کا ہمیشہ سامنا رہا۔

اولاً: حلقہءِ یاراں میں مختلف عمر کے لوگ موجود ہیں جن کی ذہنی سطح ہرگز ایک سی نہیں نہ ہی مزاج ایک سا۔ یہ تنوع ایک مصیبت سے کم نہیں۔ سنجیدہ پوسٹ، نوجوانوں کو پسند نہیں آتی، مزاحیہ پوسٹ سے بزرگان تلملاتے ہیں۔ کچھ ایسا لکھنا ممکن ہی نہیں جسے سب قبولیت سے نوازیں۔ اچھا ایسا ہو سکتا ہے کہ فنی تحریر سے بزرگ حضرات صرفِ نظر کریں، سنجیدہ پوسٹ سے نوجوان “کنی” کترائیں لیکن مجال ہے ایسا ہو۔ جب ملیں دونوں فریق گویا ہوں گے “آپ تو بس بہت ہی سنجیدہ/مزاحیہ پوسٹیں لکھتے ہیں بس۔۔۔”
احباب ضرور ذہن میں رکھیں کہ مجھے سبھی دوستوں کا لحاظ کرنا ہوتا ہے۔ ہر پوسٹ کے مخاطب خود کو قرار نہ دیجیے۔

یہی مشکل اِس اعتبار سے بھی درپیش رہتی ہے کہ میرے احباب میں سبھی مسالک، جماعتوں، گروہوں اور طبقات کے افراد شامل ہیں. ہر پوسٹ کو ہر فرد اپنے زاویے سے دیکھتا اور مقابل کو کھری کھری سناتا بھی ہے، یوں فضا مکدر ہو جاتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ خلافِ مزاج پوسٹ سے درگزر کر لیا جائے یا شائستگی سے اختلافی نوٹ لگا دیا جائے۔ یہی بہترین روش ہے۔

ثانیاً: فیسبک پر بالکل بھی اندازہ نہیں ہوپاتا کہ کمنٹ کرنے والا کس ذہنی اور علمی سطح کا بندہ ہے. ایسے میں عام طور پر اندازہ گیری میں “انڈر سٹیمیٹ” یا “اوور سٹیمیٹ” کی غلطی ہوجاتی ہے جو بالکل بھی مناسب نہیں۔ ایسے میں احباب اپنا تعارف انباکس میں کروا دیا کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔

ثالثاً: ہم فراغت کے اوقات میں فیسبک استعمال کرنے والے ہیں، احباب اِسے کل وقتی کام سمجھتے ہوئے فوری جوابی کمنٹ اور انباکس کے جواب کے طالب ہوتے ہیں، بلکہ ذرا تاخیر پر ناراض بھی. یہ بھی ایک مشکل ہے. بسا اوقات کچھ باتوں کا جواب نہ ینا ہی مناسب ہوتا ہے لیکن احباب کو کون سمجھائے۔ سو جواب نہ ملنے پر اُداس نہ ہوں۔

رابعاً: سوشل میڈیا (بالخصوص فیسبک اور وٹس ایپ) پر احباب عام طور پر تحاریر کو کاپی پیسٹ کرتے ہیں، ساتھ میں اپنا ماخذ ظاہر نہیں کرتے۔ ایسے میں کسی تحریر پر اعتماد بہت مشکل۔ میں نے ایک دو بار اعتماد کر کے افسوس ہی کیا ہے۔ احباب کاپی پیسٹ کریں تو ضرور اظہار کریں اور ماخذ بھی بتایا کریں۔

خامساً: فیسبک پر مختصر علوم و فنون کی ابجد سے ناآشنا دوست بھی، بنیادی معلومات کے بغیر، بھاشن جھاڑتے بلکہ ڈانٹے اور سیخ پا ہوتے دکھائی دیتے ہیں. مثال کے طور پر آج ہی ایک دوست کا کہنا تھا کہ علمِ الرجال کِس بلا کا نام ہے، حدیث کا اردو ترجمہ دیکھو، من بھائے تو لے لو، ورنہ چھوڑ دو۔ ایک کا کہنا تھا کہ انسان چاند پر نہیں گیا، یہ تصاویر جعلی تھیں. ایک صاحب کا کہنا تھا کہ قرآن و حدیث سے اجتہاد کے لیے عربی زبان کو جاننے کی شرط بالکل ہی غیر شرعی ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا سوال نہ ہوا، ایکسپرٹ اوپینیئن ہوئی۔ لہذا سوال کیجیے، الجھنے سے گریز ہی مناسب ہوگا۔

اب مختلف المزاج اور ذہنی سطح کے لوگوں کو سمجھانے کے لیے، مکالمہ کرنے کے لیے، اُسلوب اور دلیل بھی الگ الگ چاہیے۔ فلسفی دوست عقلی دلیل مانگتے ہیں، مولوی صاحبان نقلی اور اِن کے علاوہ احباب، من پسند دلیل کے طالب (ہاں یاد رہے کہ یہاں مناظر حضرات اپنی بات کے علاوہ دوسری کوئی بات کسی صورت قبول کرنے یا سمجھنے پر بالکل بھی مائل نہیں ہوتے)۔۔۔ ایک عقلی دلیل کو رد کر کے نقلی مانگتا تو دوسرا نقل کو اعتنا میں نہیں لاتا۔ کئی دوست تو استخاروں اور شگونوں سے بھی بہل جاتے ہیں۔

ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا، بہت سے علما، فضلا، منطقی اور فلسفی حضرات آئے. بحث مباحثہ کا دور چلا. لیکن وہ آدمی اپنے موقف سے بالکل بھی دست بردار نہ ہوتا. کسی کی دلیل کو تسلیم نہ کرتا. ایک دن ایک اَن پڑھ دیہاتی آیا. اُس نے کہا اِس آدمی سے میں بات کرتا ہوں۔ سب نے کہا کہ یہ آدمی بڑے بڑے فضلا کی بات نہیں مان رہا، تم تو جاہل ہو۔ دیہاتی ایک بڑا سا ڈنڈا لے کر گیا اور کہنے لگا کہ تم خدا ہو؟ اُس گمراہ نے کہا ہاں میں خدا ہوں۔ دیہاتی نے ڈنڈا بلند کیا اور کہا گزشتہ سال میرا جواں سال بیٹا تم نے مارا تھا؟ تیری تو۔۔۔ یہ سن کر وہ بندہ یہ کہتے بھاگ گیا کہ نہیں نہیں میں خدا نہیں۔۔۔

یہاں بات سمجھانے کے لیے بسا اوقات ایسی روش بھی اپنانا پڑتی ہے، جسے اہلِ علم حضرات ایک لطیفہ ہی گردان سکتے ہیں۔ ضمنی طور پر احباب کو اپنی بات سمجھانے کے چکر میں دیگر اہلِ علم کی بات سمجھنے سے بھی بندہ محروم رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خلاصہ یہ کہ میرے لیے نَو ہزار سے زائد فالور اور پانچ ہزار کے لگ بھگ دوستوں کے ساتھ نباہ کرنا ناممکن نہ سہی، لیکن مشکل بہت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply