نور جہاں پر عامیانہ تنقید۔۔منصور ندیم

ایک عرب دانا کی روایت ہے کہ “مجھے زندگی میں کبھی کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا. میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے؟؟

وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی؟

پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا.

یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے.کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو.کسی بھی شخص کی برائیاں اور خامیاں تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بُرا ہے یہی کافی ہے کہ اس نے تمھارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ  تمھارے سامنے  پیش  کیا  بس  اسی پر  اکتفا کرو.ہم میں سے ہر کسی کا ایک بُرا رخ ہوتا ہے  جس کو ہم خود بھی اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں.

جتنے ہمارے گناہ ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو ہم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کریں.جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ وہ اللہ ان پر پردے فرماتا ہے.کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم بھی ہوتو بھی بات نہ کریں آگے کہیں آپ کی وجہ سے اسے شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اللہ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟

نور جہاں کی برسی کے موقع پر ایک معاصر ویب سائٹ ” ہم سب” پر ایک لکھاری کا مضمون شائع ہوا ،اس مضمون کو لے کر اتنے مضامین دیکھے کہ میں بھی کچھ لکھنے پر مجبور ہو ہی گیا۔ نور جہاں کو جہاں گلو کاری ، اداکاری کے علاوہ اور بھی کئی حوالوں سے شہرت حاصل رہی ان میں اک وجہ شہرت ان کی کئی شادیاں تھیں یا ان کی ذاتی زندگی کے کچھ پہلو بھی رہے۔ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنے اداکاری کے سفر کا آغاز کیا اس وقت وہ شادی شدہ تھی ، بعد ازاں انھوں نے اپنے اس شوہر سے علیحدگی اختیار کی ۔ اور شاید جو خاکہ ان کی زندگی پر سعادت حسن منٹو نے لکھا، اس سے اچھا ان کے بارے میں کوئی نہ لکھ سکا ۔ لیکن میرے خیال میں نور جہاں جس معاشرے میں پیدا ہوئی اس معاشرے میں اس سے زیادہ بہادر اور من چاہی زندگی گزارنے والی کوئی اور عورت نہیں پیدا ہوئی۔ جس سوسائٹی میں کوئی خودمختار عورت اپنی ازدواجی زندگی میں اتنے سماجی بندھنوں اور رشتوں سے جڑی ہوتی ہے کہ باوجود چاہ کر بھی اپنی خواہش اور ذاتی زندگی پر اتنی جلدی فیصلہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی سوسائٹی کا جبر اس کو ایسے فیصلوں میں مددگار ہوتا ہے۔ لیکن نور جہاں نے جب چاہا اور جس سے چاہا اپنی ازدواجی زندگی کو اپنی خواہش کے مطابق بدل لیا۔

میں اس کو ایک بہادر عورت کے طور پر دیکھتا ہوں ، نور جہاں بھی فطرت کی طرف سے ودیعت کی گئی خواہشات اور ضروریات میں گھری انسان ہی تھی،میں نور جہاں کی فنی زندگی اور پاکستان کے لئے خدمات پر کچھ نہیں لکھوں گا، کیونکہ اس کا تو سارا جہاں ہی متعرف رہا ہے ، اور ان کی مذہبی زندگی کے ایک پہلو پر لکھنا مقصود نہیں کیونکہ اب وہ اس جگہ  پہنچ چکی ہیں جہاں کے فیصلے کرنے والا سب جانتا ہے اور وہ یقینا غفور و رحیم ہے ، بے شک بہت رحم کرنے والا ہے، وہ رب جس کی رحمت سات سمندروں سے بھی وسیع ہے سات آسمانوں سے بھی بڑھ کر ہے میں تو صرف یہی کہوں گا کہ وہ آج ہم میں نہیں ہے۔ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اس کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالیں۔بقول مولانا طارق جمیل کہ وہ رمضان کی ستائیسویں شب کو اپنے خالق حقیقی کے دربار میں پہنچی تھی، اب اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو ” ہن تسی خدا تے ہی پرچہ کرا دیو”۔

مضمون کے دوسرے حصے میں ، اس مضمون کے صاحب تحریر ” محمد عطا اللہ صدیقی ” کا بظاہر تعلق ایک ایسی محدود متشدد فکر سے تھا جو انہوں نے اپنے ہی جیسے ایک محدود طبقے کے لئے یہ تحریر 2001 ء میں ایک دینی رسالہ ’ماہنامہ محدث‘ کے لئے لکھی تھی، جو یقیناً  مجموعی  طور  پر  دینی  حلقوں  کی نمائندگی  ہر گز نہیں کرتے، صاحب تحریر عطاء اللہ صدیقی صاحب قریب آٹھ برس انتقال کر چکے ہیں ، صاحب تحریرجیسے لوگ خدا کے لہجے میں بات کرتے ہیں اس سوچ کے پروردہ لوگوں کی رعونت کو آپ اور ہم نےہی لگام ڈالنی ہے۔ یہ لوگ خدا کی مخلوق کو کیڑا سمجھتے ہیں۔ اس نجاست اور کثافت سے بھر پور تحریر کا جواب صرف اور صرف اسی لہجے میں دیا جا سکتا تھا۔مگر مرے ہوئے افراد کی کردار کشی عام طور پر بدنسل ہی کرتے ہیں، اس دشنام طرازی سے نور جہاں کا قد تو کیا ہی کم ہو نا تھاالبتہ لکھنے والے کا بغض اور کینہ ضرور نظر آتا ہے، ایسا کبر وہیں دکھتا ہے جہاں اپنے متقی و پرہیزگار ہونے کا یقین کامل اور خدا بن کر فتوے صادر کرنے کاخودساختہ وہم دماغی کجی کا مستقل سبب ہو، بہت ہی ملال ہوا ایسی ذہنی پراگندگی پر ، بس آخر میں صاحب تحریر کے لئے بھی دعا ہی کرونگا، کیونکہ وہ بھی آج مرحوم ہے، اللہ اس پر بھی رحم و عافیت کا معاملہ فرمائے ۔

اس مضمون کا سب سے تکلف د ہ پہلو “ہم سب” ہے جن کے مدیر اعلی پر حیرانی کے ساتھ ساتھ غصہ ہے کہ اتنی گھٹیا اور اخلاق باختہ تحریر کو چھاپ دیا ہے۔ ان کے تو کچھ اصول ہوتے تھے جن پر بڑی پابندی کے ساتھ عملدرآمد  کیا جاتا تھا، پھر ایک مرحوم کا اتنا متنازعہ مضمون کس حیثیت سے چھاپا گیا، کیا” ہم سب” اس تحریر کے موقف سے اتفاق کرتا ہے ، وہ تو سیکولرازم کے داعی تھے، اگر وہ اس مضمون سے اتفاق نہیں کرتے تو اس مضمون کو کیوں چھاپا جس سے وہ متفق نہیں، اگر وہ مقابل موقف پیش کر رہے ہیں تب بھی صاحب مضمون کا زندہ ہونا ضروری تھا کہ وہ اس کو خود پیش کرتا، کیونکہ فریقین کے موقف پر فریقین کا موجود ہونا لازم ہےمثبت تنقید اور صحت مند مکالمہ ضروری ہے، اگر تو سر سید یا اقبال کی افکار و نظریات پر کوئی علمی مباحث چاہے تنقیدی ہوتا اور وہ کسی بھی مرحوم صاحب تحریر سے ہوتا، وہ قابل قبول ہوسکتا تھا، لیکن یہ تحریر تو ایک انتہائی محدود فکر رکھنے والے عامیا نہ سطح کے انسان کی تھی جس نے ایک مرنے والی عورت کےذاتی کردار پر مذہب کا سہارا لے کر فقط کیچڑ ہی اچھالا تھا، ایسے میں “ہم سب” کے اس عمل نے ان کی صحافتی بد دیانتی کے مقام پر لا کھڑا کیاہے اور ان کے اصلاح معاشرہ ، اور کلمہ حق کی ترویج پر ایک کاری ضرب لگائی ہے،یقینا ” ہم سب” نے ہم جیسے قارئین کو بھی کچھ سیکھنے کا موقع دیا، لیکن یہ مضمون یقینا تکلیف دہ ہے، میرے 2 ماہ کے ” مکالمہ” سے تعلق نے مجھے کافی کچھ سکھایا ہے، وہیں میں نے انعام رانا کو ایک مہربان انسان کے علاوہ اصولوں پر سخت کاربند پایا، میری دعا ہے کہ مکالمہ کا سفر اصولوں پر ہی چلے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ماسوا اس کے کیا کہوں کہ صاحب مضمون بھی آج مرحوم ہے اور منوں مٹی تلے دفن ہے، وہ مضمون جس پر لکھا گیاتھا وہ بھی مرحوم اور منوں مٹی تلے دفن ہے ، لیکن کمال کی بات ہے جنہوں نے اسے چھاپا  لگتا ہے وہ بھی اپنی حیثیت کو مرحوم کرنا چاہتے ہیں ،لگتا ایسا ہے کہ “ہم سب” کی ٹیم نے سولہ سترہ برس پہلے کا یہ گڑھا مُردہ کھود کراس لئے نکالا تاکہ آج تک اپنا بنایا ہوا سب نام و مقام ، معیار و اعتبار اس جگہ دفن کر سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply