• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرکٹ کی ڈائن بقیہ کھیلوں کو کھا گئی۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

کرکٹ کی ڈائن بقیہ کھیلوں کو کھا گئی۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

سلمان نے نہایت اشتیاق سے اخبار کے پہلے صفحہ کی سرخیوں پر نظر دوڑائی اور ویٹر کو کہنے لگا اوئے پرانا اخبار لے آتے ہو! ویٹر نے قسم کھا کرکہا کہ صاحب آج کا اخبار ہے۔ سلمان نے بہ نظر غائر اخبار کی پیشانی پر درج تاریخ پڑھی۔ واقعی آج کا اخبار ہی تھا۔ ہماری غیر حاضری میں ملکی صورت حال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ تمام خبریں خاص طور پر سیاسی اور سماجی بالکل وہی تھیں جو ہم دو ہفتے پیشتر پڑھ کر گئے تھے۔ اسی لئے سلمان کو گمان ہوا تھا کہ اخبار آج کا نہیں ‘پرانا ہے۔ ڈھائی ماہ کے بعد وطن واپسی پر جب میں نے پہلی بار اخبار کھولا تو مجھ پر بھی یہی گزری۔ مجھے بھی شک گزرا کہ یہ آج کا نہیں کوئی پرانا اخبار ہے۔ وہی کرپشن کی کہانیاں‘ کراچی کے کسی ڈائریکٹر پارکس کی دولتوں کے انبار، جو انہوں نے صرف سو نئے پارک تعمیر کر کے اپنے لئے کچھ بچت کر لی تھی۔ یہاں مجھے وہ قصہ یاد آ گیا کہ کسی تعمیراتی محکمہ کے نئے سربراہ نے چارج لے کر منصوبوں کا جائزہ لیا کہ ان میں سے کیسے گنجائش نکالی جائے اور جب کچھ گنجائش نہ نکلی تو انہوں نے عوام کی فلاح کے لئے ایک نیا کنواں کھودنے کا حکم دیا جو کاغذوں میں کھود دیا گیا۔اور اس کی رقم سربراہ صاحب کے اکائونٹ میں منتقل ہو گئی ان کے بعد ایک اور سربراہ تشریف لائے اور کاغذوں میں کھودے گئے کنویں کی مرمت کے لئے سرکاری فنڈ مختص کئے اور یہ فنڈ بھی ان کی جیب میں چلے گئے۔ جب تیسرے سربراہ نے چارج سنبھالا تو انہوں نے سوچا کہ اب میں کیا کروں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ کنواں بہت مخدوش ہو چکا ہے۔ کوئی بچہ اس میں گر سکتا ہے اس لئے اسے بند کرنے کے لئے اتنی رقم مخصوص کر دی جائے اور وہ رقم بھی موصوف کے ہاں منتقل ہو گئی۔ کراچی کے ڈائریکٹر پارکس نے بھی پورے ایک سو پارک اسی سنہری اصول کے تحت تعمیر کر دیے۔ یاد رہے کہ ان کے شاہانہ اور وسیع غسل خانے میں ایک عدد پلنگ بھی بچھا ہوا ہے۔ مجھ سے یہ عقدہ حل نہیں ہو سکا کہ غسل خانے میں پلنگ کی’’حاجت‘‘ کیوں ہو گئی۔ شاید فراغت کے کچھ انوکھے سلسلے ہوں جن سے ہم بے خبر ہیں۔ کرپشن کے علاوہ مہنگائی کی دہائی ۔ سیاسی زعما کے وہی پر احتجاج بیانات اور حکومت کی لاپروائیاں۔ سب سے پرلطف بیان مولانا فضل الرحمن کا تھا کہ یو این کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ شخص ہمارا نمائندہ نہیں ہے۔ جعلی وزیر اعظم ہے۔ ادھر ڈاکٹر فردوس بریں کا کہنا ہے کہ یہ جو زلزلہ آیا ہے اور زمین پھٹ گئی ہے یہ دراصل تبدیلی برداشت نہیں کر سکی۔ البتہ میں نے مریم بی بی کی شعلہ بیانی سے محروم رہا۔ ان کے دم سے بڑی رونقیں تھیں۔ کہتی تھیں عمران خان نالائق ہے۔ گویا ان کے خاندان میں تو ایک سے ایک بڑھ کر نابغہ روزگار تھا۔ لیاقت ان کے گھر کی لونڈی تھی۔ انہوں نے خود تعلیم کے میدان میں بڑے بڑے ’’معرکے‘‘ سر کئے تھے۔ ویسے انہیں عجیب سے جرم میں گرفتار کیا گیا جو کسی قانون کرایہ داری کی خلاف ورزی کا تھا۔ حالانکہ انہوں نے خود اعلان کیا تھا کہ باہر کے ملکوں میں تو کیا میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں تو پھر انہوں نے کون سی جائیداد ناجائز طور پر کرائے پر چڑھا دی۔ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ دوست احباب کہتے ہیں کہ امریکہ‘ میکسیکو اور کیوبا میں ڈھائی ماہ گزارنے کے بعد تمہاری صحت بہتر ہو گئی ہے۔ دراصل میں نے اس دوران نہ کوئی پاکستانی اخبار پڑھا اور نہ ہی میڈیا پر مبصرین کرام کے خرد افروز تبصرے دیکھے اس لئے میری صحت بہتر ہو گئی ہے۔ کرکٹ ایک ایسی ڈائن ہے جو پاکستان کے دیگر کھیلوں کو کھا گئی ہے۔ ایسے کھیل جن میں کرکٹ سے کہیں بڑھ کر ہنر مندی، تکنیک، بے جگری اور ٹیلنٹ درکار ہے۔ ایسے کھیل جن کی کوئی سرپرستی نہیں کرتا اور ان کھیلوں میں کمال حاصل کرنے والے یتیموں کی مانند دربدر ہوتے ہیں اور کوئی انہیں نہیں پوچھتا، نہ اخبار ان میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ میڈیا منہ لگتا ہے۔ ایک پہلوان دنیا بھر کے پہلوانوں کو بچھاڑ کر وطن لوٹتا ہے تو ایئرپورٹ بھائیں بھائیں کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی ایک آدھ قریبی دوست یا رشتے دار اس کے گلے میں گیندے کے مرجھائے ہوئے ہار ڈال دیتا ہے یا پھر اپنے شہر پہنچنے پر گلی محلے والے کسی ڈھول والے کی خدمات حاصل کر کے اس کے گرد بھنگڑا ڈالنے لگتے ہیں اور بس۔ نہ کوئی حکومتی اہلکار نہ متعلقہ ادارے اور نہ میڈیا سب کے سب اسے حقیر جانتے ہیں۔ ایک شخص سنوکر کی چیمپئن شپ جیت کر وطن لوٹتا ہے تو کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ اسے ایک پژمردہ سی مبارکباد ہی دے کر اس کا دل رکھ لے۔ ہمارے بہت سے کھلاڑی حکومتی سرپرستی کے بغیر اپنے محدود وسائل بروئے کار لا کر باہر جا کر شاندار کارکردگی دکھاتے ہیں۔ واپس آتے ہیں تو خود ہی کوئی ہار وغیرہ خرید کر گلے میں ڈال کر اپنی سیلفی خود بنا لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہاکی ایسے قومی کھیل کے ساتھ تقریباً اچھوتوں ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کبھی توقیر ڈار سے پوچھئے کہ ان کی اکیڈمی کے وہ لڑکے جو بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ سائیکلوں پر آتے ہیں پیٹ بھر کر کم ہی کھاتے ہیں کہ کرکٹ کی ڈائن سب کچھ کھا جاتی ہے۔ آپ نے ایک مرتبہ کہیں چند وکٹیں حاصل کر لیں۔ چھوٹا موٹا سکور کر لیا تو آپ قومی ہیرو ہو گئے۔ بے شک قومی ہیرو ہو گئے لیکن گلی محلوں کی عادتیں نہ گئیں۔ ایک وکٹ حاصل کی تو گرائونڈ میں ڈنڈ بیٹھکیں لگانے لگے۔ جنریٹر سٹارٹ کرنے لگ جائیے۔آپ یہ حرکت کرتے کتنے ہی احمق کیوں نہ لگیں۔ پہلی فرصت میں ہیئرسٹائل چینج کیا۔ نئی کار خریدی اور پھر کسی پٹاخے سے شادی کر کے فوٹو شوٹ کروایا جو سب اخباروں کی زینت بنا کیونکہ آپ کرکٹ کے کھلاڑی ہیں۔ باکسنگ کے کئی عظیم کھلاڑی لیاری کی کسی کوٹھڑی میں اپنے میڈل سجائے، چہرے پر غربت سجائے بوڑھے ہو رہے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں، ان کا رزق بھی کرکٹ کی ڈائن کھا گئی۔ یہ قیاس مت کیجئے کہ مجھے کرکٹ سے بیر ہے۔ شاید میں کرکٹ بورڈ کے کئی چیئرمینوں سے زیادہ کرکٹ کو جانتا ہوں اور پچھلے ستر برس سے اس کھیل کا شیدائی رہا ہوں۔ میں دنیا کے بڑے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ذاتی طور پر مل چکا ہوں جن میں کیتھ ملر، سرلین بٹن،پٹیرمے، ٹام گرلیونی، والکاٹ، ویکس، وارل وغیرہ شامل ہیں اور ویسٹ انڈیز کے مشہور بلے باز روہن کنہائی میرے ذاتی دوست ہوا کرتے تھے لیکن کرکٹ جس طرح پاکستان کے دیگر کھیلوں کو کھا گئی ہے مجھے اس ناروا ظلم پر اعتراض ہے۔ چلئے میں اپنے آپ کو صرف کوہ پیمائی کی تفصیل تک محدود رکھتا ہوں۔ کوہ پیمائی ہماشما کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے جان دائو پر لگانی پڑتی ہے۔ پہاڑوں کی عظمت کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا کوئی معمولی بات ہے ؟یہاں سفارش نہیں چلتی۔ چیف سلیکٹر یا چیئرمین کے منظور نظر ہونے والے فوائد یہاں میسر نہیں، اگر آپ کسی معروف کھلاڑی کے بھانجے بھتیجے ہیں تب بھی آپ کی دال نہیں گلے گی کہ بلندیوں پر یوں بھی دال مشکل سے گلتی ہے اور پھر تنہا ہی برفانی بلندیوں میں وہاں آپ کی کارکردگی کی داد دینے والا کوئی نہیں، نہ براہ راست ٹیلی ویژن کوریج، نہ ہجوم، نہ تالیاں، آپ تنہا ہیں اور صرف جنون آپ کا رہنما ہے۔ آپ پر بلندی کا اثر ہو سکتا ہے، سردی سے آپ کی انگلیاں جھڑ سکتی ہیں، آپ اپاہج ہو سکتے ہیں اور کسی برفانی تودے کے گرنے کا امکان بھی ہے، کوئی برفانی تودہ آپ کو دفن کر سکتا ہے۔ کبھی سیاچن سے واپس آنے والے کسی فوجی سے پوچھئے کہ برفیلی بلندیوں پر ایک سانس لینا بھی کیسا عذاب ہوتا ہے۔ اگرچہ کوہ پیما ذاتی تشہیر اور خود نمائی کی خواہش نہیں رکھتا لیکن وہ اپنے وطن کی تاریخ کا ایک حصہ ہوتا ہے لیکن یہاں بھی ہم سب اس کے کارنامے سے بے خبر رہتے ہیں۔(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply