سرخ چاندنی۔۔معاشرے کے ناسور کی تشہیر۔۔۔۔رمشا تبسم

اسما نبیل کی تحریر کردہ ڈرامہ سیریل “سرخ چاندنی ”  اے۔آر۔وائی سے نشر کیا جا چکا ہے۔ اس کی  پروڈیوسر  ثمینہ ہمایوں سعید اور ثنا شاہنواز جبکہ ڈائریکٹر شاہد شفاعت ہیں۔ اس کی کاسٹ میں سوہائے علی ابڑو ,عثمان خالد بٹ,  سمیع خاں،منشاپاشا،حسن احمد،لبنٰی  اسلم اور اسد صدیقی سمیت بہت  سے نامور فنکار شامل ہیں۔
ڈرامہ کی نشر کی جانے والی چار اقساط بہت مہارت سے ایک معاشرتی  ناسور کی عکاسی کرتی ہیں۔عائدہ(سوہائے علی ابڑو) کو  تنگ نظری کی وجہ سے تعلیم تک نہیں  دلوائی گئی ۔ماں باپ کی محبت کا ساتھ ہونے کے باوجود بھائی اور بھابھی  کی تلخ باتیں اور لہجے  ہر وقت عائدہ کے لئے اذیت کا باعث ہیں۔معاشرہ جتنا بھی تنگ نظر ہو جائے انسان کو جتنا بھی قید کر لیا جائے مگر وہ خواب دیکھنے پر پابندی نہیں لگا سکتا۔عائدہ کا بھی ایک خواب ہے پرسکون ,محبت بھری, عزت کی زندگی, جو اپنے کزن امان (عثمان خالد  بٹ ) کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے۔بھائی اور بھابھی کی  مداخلت کے باوجود عائدہ کے  والدین اس کا رشتہ امان سے طے کر دیتے ہیں۔شمائلہ(منشا پاشا) جو کہ   عائدہ کی بھابھی ہے کسی نا کسی طرح رشتہ  ایک آوارہ لڑکے جواد سے کرنا چاہتی ہیں تا کہ کچھ معاشی فائدہ حاصل ہو سکے۔اور کسی نا کسی طرح عائدہ کے ساتھ ہوئے ظلم میں وہ بھی شریک ہے۔۔عین نکاح کے دن جواد (اسد صدیقی) عائدہ پر پالر سے واپسی پر تیزاب پھینک دیتا ہے۔اور اس طرح سے ایک چاند سا چہرہ, روشن دل ,معصوم خواب اور معصوم خواہشیں رکھنے والی لڑکی کی زندگی اس کے لئے عذاب بنا دی جاتی ہے۔۔  عائدہ ایک تیزاب سے متاثرہ لڑکی کا کردار نبھاتے ہوئے  کن مشکلات سے گزرتی ہے۔معاشرہ اس حادثے کو کس طرح گالی بناتا ہے اور جلنے کی اذیت سے گزرنے  کے بعد کس طرح ایک لڑکی لوگوں کی تلخ باتیں اور لہجے برداشت کرتی ہے یہ آنے والی اقساط میں واضح ہو جائے گا۔۔۔جس کا اب انتظار بھی ہے۔۔
یہ کہانی دیکھنے اور سننے میں بہت عام سی ہے۔اکثر لوگ اس کو بہت ہی کم اہمیت دیں گے کیونکہ ان کے لئے یہ عام سا واقعہ ہے یہ رویے یہ نفرت کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی ۔کیونکہ آئے روز اسی طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔تنظیمیں سرگرم ہوتی ہیں ، میڈیا پر خبریں چلتی ہیں۔پھر کچھ گھنٹوں یا کچھ دنوں بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔سب کچھ پہلے سا ہو جاتا ہے ۔ہم ہمارے منفی رویوں کے ساتھ اپنی زندگی میں قائم رہتے ہیں۔ مگر کچھ پہلے سا نہیں رہتا تو وہ ہے متاثرہ انسان کی زندگی جس میں اب مرنے تک صرف جدوجہد شامل ہو گی۔سانس لینے کی جدوجہد,اس سانس کی پاکیزگی ثابت کرنے کی جدو جہد,یہ داغدار جسم جو پہلے کسی کی نفرت نے جلا دیا اب اس داغ کو دامن سے ہٹانے کی جدوجہد۔روح کا ہر روز کئی  بار زخمی ہونا ،سہنا اور خود ہی مرہم لگانا ۔دل کو پل پل تڑپتا برداشت کرنا مگر پھر بھی سانس لینا۔ہر نظر آپ کا تمسخر اڑائے مگر پھر بھی سنجیدہ   رہنا اور سب سے بڑھ کر پھر بھی زندہ رہنا اس وقت تک جب تک قدرت آپ کی سانسیں چھین کر موت کو کسی نعمت کی طرح نازل نہیں کرتی۔۔موت بھی شاید  صرف   انہی لوگوں کو نعمت معلوم ہوتی ہے۔۔
یہ کہانی معاشرے کے اس رویے کی عکاسی کرتی ہے جہاں قصور صرف اور صرف  عورت کا ہی مانا جاتا ہے۔عورت”  ہاں” کر کے بدکرداری پر آمادہ ہو جائے تو بھی گناہ گار عورت ہی ہے۔اور اگر عورت ” انکار” کر دے تو اسکو تیزاب یا کسی بھی طرح سے جانی نقصان پہنچا کر یا تہمت لگا کر کردار کشی کر کے اذیت پہنچائی جاتی ہے۔۔
ایک عورت طوائف ہو کر بھی گناہ گار ہے اور طوائف نہ  ہو کر بھی گناہ گار عورت ہی ہے۔عورت کو کوٹھے کی زینت بنانے میں اکثر مرد کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اس کوٹھے پر  رات کی تاریکی میں عیاشی کرتا مرد اس کوٹھے سے دن کا اجالا  ہونے سے پہلے  نکل کر پاکباز بن جاتا ہے۔اور پھر عورتوں کو “طوائف” کی گالی بھی دیتا ہے۔۔
اکثر یہی کچھ مرد جو خود  بھی کسی عورت کے بطن سے ہی پیدا ہوتے ہیں مگر ساری عمر  دوسری عورتوں کو صرف طوائف کی حیثیت دیتے ہیں اور اس کو استعمال کی چیز سمجھتے ہیں۔ایسے مرد  جب کسی عورت سے انکار سنتے ہیں تو بدلے کی آگ میں جلتے اس عورت کی زندگی ہی جلا دیتے ہیں۔۔مگر ہاں!قصور صرف عورت کا ہی ہے خواہ کوٹھے پر بیٹھی ہو یا گھر کی چار دیواری میں عزت سنبھال کر۔۔۔مرد کا گناہ رات کی تاریکی دور ہوتے ہی صبح کی پہلی کرن کے ساتھ صاف ہو جاتا ہے۔۔۔
تیزاب کسی بھی عورت کا جسم جلاتا ہے جس کی اذیت سہتے سہتے اکثر کچھ خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔کچھ دماغی طور پر مفلوج ہو جاتی ہیں۔اگر کسی بھی طرح سے وہ بچ جائیں تو پھر معاشرہ ان کے کردار کو گالی بنا کر ان کی روح کو نوچنا شروع کر دیتا ہے۔اور تیزاب گردی یا کسی بھی طرح کردار کشی کا شکار  بنی خواتین کی روح کو معاشرے کے لوگ الفاظوں, لہجوں اور نظروں سے ہر روز نوچتے ہیں۔یہ خواتین روزانہ اپنی روح کے زخموں  پر  مرہم رکھتی ہیں اور پھر خود کو نئے الفاظوں کے نشتر سہنے کے لئے تیار کرتی ہیں۔ زمانہ جہاں ایک طرف بیگانہ ہو جاتا ہے وہاں اکثر اپنے بھی آپ کے کردار کو مشکوک بنا کر اس طرح کے حادثات کو آپ کے لئے گالی بنا دیتے ہیں۔اور جب آپ کے  اپنے آپ کے ناکردہ گناہ کی سزا بھی آپ کو دیں اور آپ کا وجود  گالی بنا دیں  اس وقت ان متاثرہ لڑکیوں  کے لئے زمین تنگ ہوجاتی ہے۔اور بالآخر موت آسان حل نظر آتی  اس تکلیف سے نجات کا۔۔
اس بارے میں سوہائے علی نے بھی ایسا ہی بتایا کہ جب انہیں  اس کہانی بارے پتہ چلا تو وہ فوری طور پر کام کے لئے تیار ہوگئی کیونکہ یہ صرف ایک ڈرامہ ہی نہیں بلکہ ایک معاشرتی تحریک بھی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں آئے روز خواتین تیزاب گردی کا شکار ہوکر زندگی بھر کے لئے معذور ہوجاتی ہیں جنہیں بعد میں کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔۔
معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت  اور منفی رویوں کے اس دور میں عاشقی  معشوقی کی داستانیں اتنی اہم نہیں جتنے اہم یہ معاشرتی مسائل ہیں جن پر بات کرنا ،ان کے اثرات بتانا، لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا  ضروری ہے۔معاشرتی مسائل  کا  سب کو بخوبی علم ہے ۔مگر پھر بھی کوئی اپنا منفی رویہ درست نہیں کرتا۔اس طرح کی کہانیوں کی بہت ضرورت ہے۔جہاں لوگوں میں شعور پیدا کیا جا سکے۔تربیت دی جا  سکے۔۔ڈرامہ مکمل ہونے  کے بعد انشاﷲ تفصیلی بات اسی پلیٹ فارم “مکالمہ” سے پبلش کی جائے گی۔
اپنا, اپنے رشتوں اور اپنے جیسے تمام انسانوں کا صرف انسان سمجھ  کر خیال رکھنا شروع کردیں۔محبتیں پھیلائیں۔ نفرتوں کا قلع قمع کریں۔۔خود بھی جئیں   اور خدارا دوسروں کو بھی جینے  دیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply