• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سینٹ پیٹر ز برگ،جہاں سے انقلاب روس کا آغاز ہوا۔۔۔۔۔طاہر انعام شیخ

سینٹ پیٹر ز برگ،جہاں سے انقلاب روس کا آغاز ہوا۔۔۔۔۔طاہر انعام شیخ

اگرچہ تقریباً پورے یورپ کو کئی بار دیکھ چکا ہوں لیکن روس جانے کا موقع نہ مل سکا تھا، زمانہ طالب علمی ایشیا کے سرخ یا سبز ہونے کی بھرپور نظریاتی تحریک دیکھنے میں گزرا اور یوں کمیونزم و سرمایہ داری نظام کے خاصی حد تک مطالعے اور تقابلی جائزے کا بھی موقع ملا، دنیا کے تین انقلابات ایسے ہیں جن کو عظیم ترین عوامی انقلابات کہا جاسکتا ہے۔ 1789ء کا انقلاب فرانس، 1917ء کا انقلاب روس اور 1979 کا انقلاب ایران، ہر انقلاب کی اپنی اپنی اہمیت، لیکن انقلاب روس نے پوری دنیا چاہے وہ ترقی یافتہ تھی یا پسماندہ، جمہوری تھی یا غیر جمہوری تمام معاشروں پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اس انقلاب نے روس کے پسماندہ جاگیردارانہ معاشرے کو صحت، تعلیم، اسلحہ سازی، خلائی ٹیکنالوجی اور سائنس میں بے پناہ ترقی دی اور امریکہ و جاپان کی مجموعی تعداد سے زیادہ سائنسدان پیدا کیے، چین جیسے افیمی معاشرے کو ایک نظم و ضبط کا پابند بناکر ترقی کی نئی راہیں دکھائیں ، اگرچہ اب یہ دونوں ممالک آزاد منڈی کی معیشت اختیار کرچکے ہیں جوکہ سوشلزم کی ضد ہے۔

اب یہاں سوشلزم صرف سیاسی نظام کی حد تک ہے جو حکومتوں کو اس وجہ سے پسند ہے کہ انہیں مکمل آمرانہ اختیارات دیتا ہے، بچپن سے ہی روس کے متعلق ’’ایک آہنی پردے‘‘ کا تصور ذہن میں جاگزین  ہوچکا تھا، بعدازاں اگرچہ یورپ کے کئی سابقہ کمیونسٹ ممالک میں جانے کا موقع ملا، لیکن روس جہاں سے کمیونزم نے جنم لیا تھا وہاں جانے اور اسے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ دل میں موجود رہی، چنانچہ اس سال ہم نے چھٹیوں کے لیے جو کروزCruiseبک کرایا اس میں سینٹ پیٹرز برگ کا خوبصورت اور تاریخی شہر بھی شامل تھا، ہم اسکاٹ لینڈ کے شہر ڈنڈی سے کروز شپ پر سوار ہوئے اور پہلی منزل ڈنمارک کا شہرAarhusآرس تھا، اس کے بعد جرمنی کے شہرRostockرسٹاک پہنچے، وہاں سے استھونیاEstoniaکے صدر مقام تلین Tallinn اور پھر روس کے دوسرے سب سے بڑے شہر پیٹرز برگ پہنچے، جو دو سو سال تک روس کا کیپٹل رہا اور1924ء سے1991ء تک اسے لینن گراڈ کے نام سے پکارا جاتا رہا، جہاں سے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی اور پھر سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم گئے، واپس پر ڈنمارک کے کیپٹل کوپن ہیگن قیام کیا اور14دن بعد آخر میں نیو کاسل کے راستے ڈنڈے آگئے،۔

سینٹ پیٹرز برگ جو زار پیٹر نے 1709ء میں آباد کیا تھا، وہ اسے یورپ کا خوب صورت ترین شہر بنانا چاہتا تھا، چنانچہ اس نے مختلف ممالک سے تعمیرات کے ماہرین بلائے اور دریائے نیوا کے اطراف میں شاندار عمارات بنوائیں، یہاں پر نہایت خوب صورت محلات اور شاندار گرجا گھر ہیں، 1917ء میں انقلاب کا آغاز اس شہر سے ہوا تھا، میں وہ شپAuroraخصوصی طور پر دیکھنے کیلئے گیا، جس نے انقلاب کے دوران پہلا علامتی فائدہ کرکے بالشویک انقلابیوں کو پیغام دیا کہ وہ بادشاہ کے سرمائی محل پر حملہ کردیں، میں کمیونسٹ انقلاب تھا، جس نے یورپ میں پہلی بار روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور زندگی کی دیگر تمام بنیادی سہولتوں کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا، اس انقلاب نے مغرب کے تمام سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں اور حکومتوں کو لرزہ برندام کردیا، یورپ کے مختلف ممالک میں سوشلزم کی مضبوط تحریکیں چل پڑی تھیں اور ان کو پتہ چل گیا کہ اگر انہوں نے اپنے ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہ کیں تو وہ بھی ایک دن کسی کچے پھل کی طرح کمیونزم کی جھولی میں گر جائیں گے۔

امریکہ تو اس حد تک خوفزدہ تھا کہ وہاں میکارتھی ازم کے تحت سوشلزم نے کسی بھی قسم کا تعلق ای سنگین جرم قرار پایا، یورپی ممالک نے عقل مندی سے کام لیا اور سوشلزم اور سرمایہ داری دونوں نظاموں کی اچھی اچھی باتیں لے کر فلاحی ریاست کی بنیادیں رکھی، سوشلزم اگر انسان کی مادی ضروریات پوری کرتا تھا تو وہاں سیاسی مخالفوں کی زبانیں تک گدی سے کھینچ لی جاتی تھیں، مذاہب پر پابندیاں تھیں اپنی تمام تر ایمانداری کے باوجود اسٹالن نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی سالوں کے اندر پولٹ بیورو کے 24میں سے اپنے علاوہ دیگر23ارکان کو قتل، جلاوطن یا پھر سائبریا میں قید کروادیا، جہاں تک کہ لینن کے انتہائی قریبی ساتھی اور انقلاب کے ایک ہیرو ٹرائسکی کو میکسیکو کی جلاوطنی کے دوران مروا ڈالا، یورپ کی فلاحی ریاستوں نے عوام کو زندگی کی تمام تر سہولتوں کے ساتھ ساتھ آزادی تحریر تقریر بھی دی اور خود کو ہر لحاظ سے کمیونزم سے بہتر ثابت کیا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یورپ میں ویلفیئر اسٹیٹ کا نظام قائم ہونے کی وجہ سوشلزم کا دبائو ہی تھا، سینٹ پیٹرز برگ اپنی سفید راتوں کے لیے بھی مشہور ہے، جہاں ہر سال21سفید راتیں ہوتی ہیں، جن میں سورج عام دنوں کی طرح غروب نہیں ہوتا، رات کو مکمل تاریکی نہیں ہوتی، بلکہ نیلے رنگ کی روشنی پھیلی رہتی، جون اور جولائی کے مہینوں میں بے شمار سیاح ان سفید راتوں کے نظارے کیلئے آتے ہیں، ان سفید راتوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ ایک مسئلہ بھی تھا اور رات تقریباً ساڑھے دس بجے افطاری کرتے اور یوں روزے کا دورانیہ21 گھنٹے سے بھی زیادہ کا ہوجاتا تھا۔ سینٹ پیٹرزبرگ میں دو شاندار مساجد ہیں، سینٹرل مسجد جوکہ ترکی کے بعد یورپ کی سب سے بڑی مسجد سمجھی جاتی اس کا گنبد39میٹر، جبکہ دو مینار49میٹر کے ہیں۔ اس مسجد میں5ہزار غازی آتے ہیں، سینٹ پیٹرزبرگ میں کتنے مسلمان ہیں، اس کی صحیح تعداد کا تو پتہ نہیں چل سکا، لیکن دونوں بڑی مساجد میں عید کے اجتماعات میں تقریباً 45ہزار مسلمان ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو سوویت حکومت کے زمانے سے ایشیائی ریاستوں سے یہاں منتقل ہوئے، جبکہ تاتاری مسلمان یہاں سینٹ پیٹرز کے زمانے سے آباد ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply