شادی انگریزی میں ہوگی یا اردو میں؟۔۔۔نذر محمد چوہان

امریکہ سے ایک خاتون نے مجھے لکھا کہ  وہ اپنی یادداشت لکھنے جا رہی ہیں ، جو عورتوں کے استحصال پر تبصرہ ہے ، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک گائیڈئنس ۔ وہ سمجھتی تھی کہ میں لکھ اچھا لیتا ہوں لہٰذا مجھ  سے معاونت کی درخواست کی ۔ میں نے جواباًًً  لکھا ، سو بسم اللہ ، میرے تو اپنے بلاگ بھی دراصل آنے والی نسلوں کے لیے ہیں ۔ میں نے کہا کہ  یہ یادداشت آپ انگریزی میں لکھنا چاہتی ہیں یا اردو میں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ انگریزی میں کیونکہ ان کی کہانی کا فوکس یا مرکز امریکہ میں مقیم پاکستانی ہوں گے ۔
اس سے مجھے دس سال پرانا کراچی کا ایک واقعہ یاد آ گیا، میری ایک غیر ملکی دوست مجھے ایک کراچی ڈیفینس میں شادی پر لے گئیں ۔ وہ شادی کیا تھی ایک عجب ڈرامہ تھا۔ اس وسیع و عریض گھر کے سوئمنگ پُول کے ساتھ لان میں چند مخصوص لوگوں کے لیے دعوت شیراز تھی ۔ فلپائن اور تھائی لڑکیاں لوگوں کو کھانا اور ڈرنکس سرو کر رہی تھیں ۔ ایک بھاری بھرکم سے مولوی نازل ہوتے ہیں اور آتے ہی فرماتے ہیں کہ  “شادی انگریزی میں ہو گی یا اردو میں ؟” ایک گوری بوڑھی کیتھی عزیز نُما خاتون جسے دلہن کی نانی اماں بتایا جا رہا تھا اس نے کہا کیونکہ یہاں زیادہ تر انگریزی بولنے والے ہیں تو شادی انگریزی میں ہی ہو گی ۔ ڈیفنس کراچی کے مولوی ٹوٹی پُھوٹی سی انگریزی بھی بول لیتے ہیں فرمانے لگے لائیں جی مائیک ۔ فلپائنی لڑکی نے ان کے ہاتھ ایک عدد کارڈ لیس مائیک تھما دیا ۔ مولانا نے اپنی گلابی انگریزی میں گرجنا شروع کر دیا ۔ زیادہ تر لوگ ہنستے رہے ۔ مولانا کی تقریر اور نکاح کا عروج آخر ایک لکھی ہوئی  تحریر پر ہوا جو انہوں نے رجسٹر اور فارمز کے اندر رکھی ہوئی  تھی ، اسے پڑھنے لگے ؛
“In the name of Allah, the Most Beneficent and the most Merciful, Allah made the pair of Must Shamama and Hammad in the heavens, so we have no choice but to accept them as husband and wife right here and now”
دعا کی بجائے خود بھی تالیاں بجائیں اور انگریز نانی کے منہ میں مٹھائی  ڈالی اور انہیں ڈھیروں مبارکیں دیں ۔ وہ انگریز عورت اس مسلمان پادری پر بہت خوش ہوئی  ، ایک گھڑی مولانا صاحب کو تحفہ میں پیش کی گئی ۔مجھ سے یہ سارا معاملہ دیکھ کر رہا نہ گیا ، میں نے مولانا سے علیحدگی میں پوچھا کہ  یہ انگریزی شادی کا کیا مطلب ہے ؟ مولانا نے قہقہہ لگایا اور کہا ، صاحب یہ سب بندر تماشہ ہے ، یہ انگریز عورت کا خاوند مسلمان تھا لیکن یہ عیسائی رہی اور اپنی نواسی کی شادی پر بھی انگریزی نکاح پسند فرمایا ۔ میرا کام تو صرف ڈگڈگی بجانا ہے ، میں تو ادھر صرف ڈگڈگی بجانے آیا ہوں کوئی  نکاح خواں تھوڑی  ہوں ؟۔
مولانا مزید بتانے لگے کہ  اس ممی ڈیڈی نسل کے کافی سارے لوگ یہاں ڈیفینس کے اسی گھر میں شادی کے لیے آتے ہیں اور مجھے ہی ڈگڈگی بجانے کے لیے بلایا جاتا ہے ۔ اچھا معاوضہ بھی مل جاتا ہے اور کھانے پینے کو بھی وافر چیزیں ۔
امریکہ میں جب پادری جم جونز ، پادری ہوتے ہوئے بھی بندر بیچتا تھا تو اکثر بندر ٹرانسپورٹ کرتے ہوئے زخمی ہو جاتے یا مر جاتے تھے ۔ جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے پادری پر دعوی کر دیا کہ  یہ معصوم جانوروں پر ظلم ہے ۔ پادری نے عدالت میں بہت دلچسپ دفاعی کلمات پیش کیے ۔ اس نے کہا کہ  ڈارون کے مطابق یہ بندر ہمارے بڑے ہیں ، ہندو مذہب میں ان کو پُوجا جاتا ہے اور ہنومان جینتی کے مندر میں چیتر کی پورے چاند کی رات بہت جوش و خروش سے ان کا جنم دن منایا جاتا ہے ۔ پادری نے مزید کہا کہ  اس کی تو ہمیشہ خواہش رہی کہ  ان بندروں کو جہاز کی VIP کلاس میں ٹریول کروایا جائے لیکن کوئی  ہوائی  کمپنی مانتی ہی نہیں ، لہٰذا، اس عدالت سے استدعا ہے کہ انہیں اس کے لیے مجبور کیا جائے ۔
پاکستان میں آج کل ایک ڈگڈگی بجانے والے عربی شہزادے کی وساطت سے ریاست پاکستان کا قرضوں اور سرمایہ کاری سے شادی کی تقریبات کا جشن منایا جا رہا ہے ۔ ساری تیل ، مائیوں اور مہندی کی تقریبات بہت دھوم دھام سے ہو رہی ہیں ۔
مشرف کے دور میں ایک دن میں اپنے ایک بیچ میٹ سے ملنے اسلام آباد کے پاکستان کے فارن آفس چلا گیا ۔ وہاں اس کے کمرے میں ایک لکڑی کا بھاری بھرکم سا صندوق پڑا تھا جس پر ایک کاغذ  چسپاں تھا اور کاغذ پر لکھا ہوا تھا ؛monkey union ۔ مجھے بکس بھی بہت پسند آیا اور وہ لیبل بھی ، میں نے کہا یہ مجھے تم لے دو ۔ میں گھر میں ہمیشہ اس قسم کے بکس رکھتا تھا یہ زندگی کے سفر ہونے کی علامت بنتے ہیں اور بوجہ ضرورت نقل مکانی ، حوصلہ بھی باندھے  رکھتے ہیں ۔ اس نے کہا اس میں پچھلے دس سال کے مختلف حکومتوں کے ساتھ MOUs کا ریکارڈ ہے اور کوڈ ورڈ اسے مانکی یونین کا دیا ہوا ہے ۔ ویسے تو یہ ردی ہے ، لیکن مستقبل میں نمونے کے طور پر ہم اسے استعمال کرتے ہیں ۔ اس نے کہا کہ وہ اسٹیٹ آفیسر سے پوچھے گا کہ  اس نے کہاں سے یہ بکس بنوایا ، لگتا ہے یہ باہر کا ہے اور دوسری جنگ عظیم کے وقت کا ۔ چڑیا گھر میں بھی بندر بچوں کے لیے بہت ہی زیادہ دلچسپی کا مرکز بنتے ہیں اور چڑیا گھر کی مینیجمنٹ کو بس ہر وقت صرف یہ فکر رہتی ہے کے کوئی  بچہ کہیں کسی بندر کے ہاتھ اُسترا نہ پکڑا دے ۔
ڈاکٹر شاہد مسعود ضمانت پر رہائی  کے بعد بھی پھر وہی راگ الاپ رہے ہیں کہ  یہ نظام ، یہ حکمران ، یہ پارلیمنٹ ، سب کے سب irrelevant ہو گئے ہیں ۔ مجھے ان پر بہت ترس آتا ہے ، خاص طور پر جب وہ بیچارے یہ کہتے کہتے اکثر خود irrelevant ہو جاتے ہیں ۔ دراصل ڈگڈگی ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاس نہیں ہے وہ پنڈی والوں کے پاس ہے ۔ لیکن میں ڈاکٹر صاحب کو درست کرتا چلوں کہ  جو اصل ڈگڈگی کا مالک آسمانوں پر بیٹھا ہے اس کے نزدیک ہماری کرتوتوں کی وجہ سے پورے کا پورا ایشیا اور مشرق وسطی کا ریجن ہی irrelevant ہو گیا ہے ۔ اس کے بارے میں سوچا جائے کہ  اب کیا ہو گا ؟ وہ رب وہ خالق ، سخت ناراض ہے اس منافقت کے تڑکے والی قتل و غارت اور چور بازاری سے ۔ یمن میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ بھوک اور ننگ سے اگلے دو سال میں مر جائیں گے ۔ شام میں روز سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ کہیں نہتے کشمیریوں پر ظلم اور کہیں فلسطینیوں پر ۔ جن لوگوں نے جمال کو قتل کر کے اس کی لاش کو ٹکرے ٹکرے کر کے تیزاب میں جلایا وہ پورے خطہ میں آخر کار لال آندھی لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ  سب مر جائیں گے ، کوئی  بچے گا تو شاید کوئی  نوح کی کشتی والا معاملہ ہو جائے ۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ رب کریم وہی مخلوق شاد و آباد رکھے گا جو اس کی تابعداری کرے گی ۔ سب کی روحانی شادی طے ہے چاہے انگریزی میں ہو یا اردو میں ، ویسے تو روحانیت کی کوئی  زبان نہیں ہوتی ، وہ تو روشنی ہے ، ایک نور اور ہر وقت اجالے والا معاملہ ۔ گردنیں کٹتی ہیں لیکن روح قائم رہتی ہے ۔ جس حال میں بھی رب کریم رکھے بہت خوش رہیں ، اور استغفار کا ورد کرتے رہیں تا کہ آسانی والی موت آئے ۔ اللہ نگہبان ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply