الیکشن کی احتیاطی تدابیر ۔۔۔۔ احمد عماص سعید

الیکشن کا پھر دور دورہ ہے ، ہر طرف نئے پرانے سیاست کاروں کی برکھا رت ایک بار پھر برسن ہارے کو ہے ۔ رنگ ترنگ کی بولیاں ، وعدے ، قسمیں ، “آیا ، آیا ۔۔۔ آیا” “۔۔۔ جی کچھ حیاء کرو اتنے نا ویا ہ کرو ” ” تو آگے چل میں پیچھے آیا ” کی نعرے بازیاں ، تماشاگروں کے وہی پرانے شعبدے اور مجنونوں کی ویسی ہی دھمالیں۔۔ ہمیشہ سے الیکشن کا موسم ایسا ہی رہا ہے ، جس میں مفادات کی دیوی شطرنج کے مہروں کی طرح دوستیاں دشمنیوں میں بدل دیتی ہے اور انہی بنیادوں پر نئی رفاقتیں جنم لیتی ہیں اور پرانی دشمنیاں بعض اوقات محبتوں میں بدل جاتی ہیں ،یوں المختصر اس موسم میں پورا ملک ایک اکھاڑے کا منظر پیش کرتا ہے ، جس میں تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے منشور و نظریہ سیاست کی بجائے لڑاکا خون خوار پہلوان میدان میں اتارتے ہیں،جس طرح ایک ماہر جواری سب سے تیز ریس کے گھوڑے پر پیسہ لگاتا اسی طرح کا کچھ دستور ان سیاسی جماعتوں کا ہے فرق صرف اس قدر ہے کہ یہاں پارٹی فنڈ کے نام پر ریس کے گھوڑے رشوت دیتے ہیں۔ غیبت، چغلی ، الزام ، بہتان کے ایندھن سے نفرتوں کے ایسے الاؤ اُلاہے جاتے ہیں جس سے مذہبی ، لسانی ،نسلی و ذات پات میں منقسم معاشرہ سیاسی نعروں سے مزید تقسیم ہو جاتا ہے ۔

مجھے نہیں معلوم کہ پچھلے دوروں میں جب اقتدار کی تبدیلی جنگ و جدل سے ہوتی تھی تو عام عوام کی کیا حالت ہوتی ہو گی ۔ بظاہر عام عوام فیصلہ سازی کے اس عمل میں غیر جانبدارہی رہتی ہوگی کیونکہ اُن دنوں حصولِ اقتدار کی لڑائی صرف طاقتور طبقوں کے ما بین ہوتی تھی۔ پھر زمانے نے پلٹا کھا یا اور انگریز بابو نے اس اہم کارنامے کیلئے الیکشن کا ڈول ڈالا، اب حصول اقتدار کیلئے گردنیں نہیں ماری جاتیں صرف پگڑیاں مارنے سے ہی کامل فتح حاصل ہونے کی امید بن جاتی ہے۔ لیکن ایک نسبت اب بھی باقی ہے وہ یہ کہ طاقت ور اپنی طاقت کے اظہارکیلئے خونخوار درندوں ، نشانہ بازی کے ہتھیاروں ، ہتھوڑوں ، ڈنڈوں اور بلوں کو اپنا انتخابی نشان کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، جو اپنے استعمال میں’ انتخابی’ کم “انتقامی” زیادہ لگتے ہیں۔

سیاستگری ماقبل تاریخ سے ہی زر اور زمین ہی کے گرد گھومتی ہے، ماضی میں بھی اقتدار طاقت اور قوت کو مجتمع کرکے کمزوروں کو مغلوب کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ،طاقت اور قوت اپنے اظہار کیلئے خوف و ہراس کا سہارا لیتی ہے ، ظالم و جابر محکوم کا استحصال صرف مال دولت کے حصول کیلئے نہیں کرتا بلکہ ہر ظلم طاقت کے غلبے کو برقرار رکھنے کی ایک ناگزیر حکمت عملی ہوتی ہے جس کے تحت عام عوام کے قلوب کو گرفت میں کیا جاتا ہے۔

ظلم کے نظام میں اگر کوئی معصوم یہ خیال کرے کہ وہ ووٹ کی قوت سے غریبوں کے تمام مسائل حل کردے گا تو یہ بذات خود انتہائی حماقت اور مذحقہ خیز ہے ، ووٹ میں کبھی بھی قوت نہیں رہی ، اصل قوت کہیں اور ہوتی ہے جس سے یہ ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ اقتدار ، قوت اور ظلم ایک مثلث ہے جو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ، اقتدار کیلئے قوت ، قوت کے حصول کیلئے ظلم کی اور ظلم کرنے کیلئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ غریب عوام اس مثلث سے باہر پائی جاتی ہے ۔ اگر کوئی خود کو غریب ظاہر کرکے غریبوں و محکوموں کا نمائندہ گردانے تو وہ یا تو بے وقوف ہے یا پھر بہروپیا ظلم کے نظام میں غریب ہمیشہ سے object ہوتا ہے ۔

میری عام عوام سے اپیل ہے کہ ان دنوں میں حسب ذیل امور پر عمل کرنے سے آپ الیکشن کے فتنوں سے محفوظ ہو سکتے ہیں ۔

1 ۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے بغیر تنخواہ دار ورکر نہ بنیں ۔

2 ۔ ایسی کسی سرگرمی میں شامل مت ہوں جہاں رنگ ، ذات ، نسل و برادری کی بنیاد پر غیبت، چغلی ، الزام ، بہتان کے ذریعے نفرتوں کا بازار گرم کیا جائے ۔

3 ۔ جو بھی آدمی مذہب ، زبان و قبیلہ کو بنیاد بنا کر انسانی جذبات کو بھڑکائے تو جان رکھیے اس کا مقصد کبھی بھی اصلاح نہیں ہوگا ، اس سے اپنے آپ کو بچائیں وہ آپ کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہوگا ۔ عصبیت کے بدبو دار نعروں سے اپنے آپ کو بچائیں ۔

4 ۔ غریب جب کسی کے ساتھ اخلاص کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو اپنا قیمتی وقت ، جان و مال نچھاور کر دیتا ہے ، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاست ایک کاروبار ہے ۔ ایک چھوٹا سیاسی غریب و عام لوگوں کو اکٹھا کرکے اپنی قوت کا اظہار کرتا ہے جس سے یہ بڑے سیاسی سے مالی و سیاسی منفعت حاصل کرتا ہے ، ہوشیار ہو جائیں ، آپ کا وقت بہت زیادہ قیمتی ہے ، اسے یا تو اللہ کی فرمابرادی میں خرچ ہونا چاہئے یا اپنی خاندان کی ضروریات میں ، اور اگر کوئی سیاست دان اس وقت کا تقاضا کرے تو اسے اس کی قیمت ادا کرنی چاہئے ، جس طرح ایک ڈاکٹر اور ایک وکیل حاصل کرتا ہے ۔

5 ۔ اصولی اور علمی طور پر سیاست معاشرہ کے اجتماعی امور کو منظم انداز میں ترتب دینے کا نام ہے ، جس میں حفاظت ، صحت ، روزگار اور تعلیم بنیادی ضروریات ہیں۔ ووٹ آپ کی رائے ہے اس سے قبل یہ دیکھیں کہ کون سا آدمی ان اجتماعی امور کو منظم انداز میں مرتب کرنے کی اہلیت رکھتا ہے ، اچھی طرح غور فکر کریں اور اجتماعی مفاد عامہ میں جو بھی بندہ آپ کو درست لگے اسے ووٹ دیں ۔ لیکن ایک بات یا د رکھیں جو سیاست دان بھی معاشرہ میں انتشار و افتراق پیدا کرے وہ معاشرہ کے اجتماعی امور کا کسی طور بھی محافظ نہیں ہو سکتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

6 ۔ آپ جسے ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہوں ، اس کی نیکی امانت دیانت اور عدل کے بارے میں ضرور تحقیق کریں ۔ اگر ایسا کوئی بھی نہ ملے تو ایسے شخص کا انتخاب کریں جس کا شر باقیوں کی نسبت کم ہو ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply