• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمیرہ احمد کے ناول والی ہاوس آفیسر- آخری قسط/ڈاکٹر مدیحہ الیاس

عمیرہ احمد کے ناول والی ہاوس آفیسر- آخری قسط/ڈاکٹر مدیحہ الیاس

کل اس کی ہاؤس جاب کا آخری دن تھا ،جس کو بھرپور طریقے سے منانے کیلئے وہ انتہائی پرجوش تھی۔ لائف کے ہر بیوٹی فل ایونٹ کو موسٹ بیوٹی فل بنانا اس کی بچپن کی عادت تھی۔۔ اس نے 5 منٹ کی مسلسل کوشش سے آخرکار کل پہننے والے لباس کا انتخاب کر ہی لیا تھا۔ مجنڈا رنگ کا جاماوار کا شرارہ, ہلکے سبز رنگ کی چولی اور پیلا شفون کا دوپٹہ۔ نازک کلائیوں کی آرائش کیلئے رات کی رانی کے پھولوں کے گجرے اس نے مہینہ پہلے ہی بنا کے فریز کر رکھے تھے, ہاؤس جاب ختم ہونے کی خوشی کے ساتھ ساتھ اس کے دل کے right ventricle کی apex پہ کہیں 5mm کی اداسی بھی پنہاہ تھی جو اسے بے چین کیے جا رہی تھی۔

مگر وہ ان چھوٹی موٹی اداسیوں کو ٹیکل کرنا جانتی تھی۔۔۔

ابھی وہ اپنے گھنگریالے بال استری سے اسٹریٹ کر ہی رہی تھی کہ موبائل پہ بلی کی آواز کی سُوریلی دُھن بجی, fb کا  نوٹیفیکیشن آیا ۔۔۔ اس کے پی جی نے سٹیٹس اپ لوڈ کیا تھا۔۔۔ پی جی کا ہر سٹیٹس اپ لوڈ اس کے دل میں خوشی ڈاؤنلوڈ کرنے کیلئے کافی ہوتا تھا, مگر یہ سٹیٹس کچھ الگ نوعیت کا تھا۔۔
“again failed۔۔۔۔۔ feeling blah ” ۔۔۔
وہ خالی نگاہوں سے موبائل کی چمکتی سکرین کو دیکھتی رہی۔۔۔ اس کا پی جی تیسری بار imm میں فیل ہوا تھا۔۔۔ فیل ہونے کا دکھ ایک طرف۔ اسکا پی جی blah feel کر رہا تھا ،یہ بات اس کے جگر کو scalpel سے چیرے جا رہی تھی۔۔ زمین رک سی گئی تھی, وقت تھم سا گیا تھا۔ اور آنسوؤں کی لمبی دھار کاجل کے ساتھ مل کے اس کے گلابی کیے ہوئے گالوں کو کالا کرنے میں اور اسے ڈریکولا لُک دینے میں مگن تھی۔۔۔ وہ جانے کتنے پہر روتی رہی۔۔ بلآخر اس نے موبائل اٹھایا اور نو سو ننانوے لفظوں کا حوصلہ افزائی والا میسج ٹائپ کر کے پی جی کو سینڈ کر دیا۔۔۔ چند ہی لمحوں میں بیپ بجی, اس کے دل کی دھڑکن SVT کی مانند ہو گئی  ۔۔ کانپتے ہاتھوں سے موبائل اٹھایا, لفافے کے آئکن پہ 1 کا ہندسہ نمایاں تھا۔۔ اس نے اپنی انگلی کے نازک پور سے لفافے کو چھوا تو inbox کھل گیا۔۔
Dear customer, you have insufficient balance to send this message
کا پیغام پڑھ کے اس کی بھوک نیند سب فنا ہو چکا تھا۔۔۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔۔ وہ تیر کی سی تیزی سے اٹھی, اوورآل کی پاکٹ سے 5CC syringe اور ایمپیول نکالا اور موبائل کی روشنی میں اپنی decubitus vein ڈھونڈنے لگی۔۔۔ vein ملتے ہی اس نے ٹیکہ بھر کے اس رگ میں قطرہ قطرہ اتار دیا۔۔۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں , قلبِ  بے چین کی تیز رفتار سست پڑ نے لگی۔۔۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ بے سدھ بستر پر گر گئی ۔۔ اس کے چہرے پہ قدرے سکون تھا۔۔ hunger pangs کی بے چینی رفع ہوتے ہی اسے میٹھی نیند آ گئی تھی۔۔ 25% dextrose water کا انجکشن ہمیشہ سے ہی اس کیلئے آب حیات ثابت ہوتا تھا۔۔

اگلی صبح اس کی آنکھ مرغ کی بانگ سے کھلی۔۔ وہ قدرے فریش feel کر رہی تھی۔۔ ہمت اور حوصلے کا سمندر اس کے اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔۔۔ اس کے رات کے آنسوؤں کا رازدار اس کا تکیہ تھا۔۔ وہ کسی اور کو ہمراز بنانا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔وقت دیکھا تو صبح کے 11 بج رہے تھے۔۔ اسے تشویش ہوئی, معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ آج مرغا آلارم لگانا بھول گیا تھا۔۔

آج اسے وارڈ میں نہیں, پی جی کے imm کی موت کے چہلم میں جانا تھا۔ اس نے کالی شلوار قمیض پہنی اور میک اپ کے بغیر وارڈ کا رخ کیا۔وارڈ کے باہر بیٹھے گارڈ نے اسے یہ کہہ کر دہلیز پار کرنے سے روک دیا کہ مائی۔۔ اندر راؤنڈ ہو رہا ہے۔۔ رشتہ داروں کا داخلہ ممنوع ہے۔۔
اس کے دل پہ گویا غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔۔ کیا وہ میک اپ کے بغیر اتنی بری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔ کیا اس کے بغیر ہی راؤنڈ ہو گیا۔۔۔ کیا وہ اس قدر غیر اہم تھی ۔۔۔

سوچوں کا ایک طوفان تھا جس کا سامنا وہ چراغ سحر ی کی مانند کر رہی تھی۔۔۔ مگر کب تک۔۔۔

آخر اس نے ساتھ والی کھڑکی سے چھلانگ لگا دی اور پھر شیڈ پہ چلتے ہوئے واش روم کے وینٹی لیٹر کے ذریعے وارڈ میں داخل ہوئی۔۔۔ راؤنڈ واقعی اس کے بغیر ہو چکا تھا۔ بیسٹ ایچ او کا ایوارڈ سب سے زیادہ گپیں مارنے والی ایچ او کو مل چکا تھا, اس کا پی جی کسی اور لڑکی کے ساتھ سیٹ ہو چکا تھا۔۔ وارڈ میں زندگی اس کے بغیر بھی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھی۔۔۔۔ سب ویسے ہی تھا۔۔ نہیں تھی تو بس وہ نہیں تھی اور lavender کی خوشبو نہیں تھی۔۔۔۔۔
وہ جس راستے سے آئی تھی, اسی راستے سے واپس چلی گئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج ہاؤس جاب کا آخری دن تھا, وقت کی بے اعتنائی, پی جی کی بے وفائی اور گارڈ سے ہونے والی رسوائی کے ساتھ ہاؤس جاب کی بے ثباتی اور بی ایچ یو ملنے نہ ملنے کی غیر یقینی کیفیت کے ساتھ فراغت کے ان لمحات میں زندگی کیسے کٹے گی, وہ نہیں جانتی تھی۔۔ سڑک پہ بھاری قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظر پاس سے گزرتے رکشے کے پیچھے لگے اشتہار پہ پڑی۔۔ سی ایس ایس کے ایگزام کی آخری تاریخ میں ساڑھے تین دن باقی تھے۔۔ اس کے دل میں امید کی کرن جاگی۔۔۔ اب اس کے قدم ہاسٹل کی بجائے بک شاپ کی طرف رواں تھے۔۔
(ختم شد)
(تحریر کا مقصد اداسی کے لمحات کو مسکراہٹوں سے سجانا ہے۔ محترمہ عمیرہ احمد صاحبہ سے بہت معذرت کے ساتھ )

Facebook Comments

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
الفاظ کے قیمتی موتیوں سے بنے گہنوں کی نمائش میں پر ستائش جوہرشناس نگاہوں کو خوش آمدید .... ?

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply