• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میری وزیر آغا مرحوم سے بحثا بحثی کی ایک واردات۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میری وزیر آغا مرحوم سے بحثا بحثی کی ایک واردات۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 میں جب بھی لاہور جاتا، ڈاکٹر وزیر آغا کے دولت کدے پر ہی ٹھہرتا۔ اوپر والی منزل پر ایک طویل و عریض کمرہ اور غسل خانہ میری عارضی املاک تھے۔ شام تک تو احباب (جن میں ڈاکٹر انور سدید اور شاہد شیدائی سرِ فہرست تھے) بیٹھے رہتے اور ہم دنیا بھر کے ادب کے بارے میں جی بھر کر باتیں کرتے، لیکن شام کے طعام کے بعد (جس میں  جام شامل نہیں تھا) خاکسار اور وزیر آغا صاحب ہی رہ جاتے اورہماری گفتگو کا سلسلہ کئی بار اس قدر طویل ہو جاتا کہ ڈر لگتا کہ کہیں فجر کی  اذان ہی نہ ہو جائے۔ ایک بار جب ہم ن م راشد اور میرا جی کے بارے میں بحث و مباحثہ میں مصروف تھے ، تو ایسا ہوا بھی تھا۔ یہ اسی بات چیت پر ایک مختصر نوٹ ہے۔

بات کا آغاز تو راشد سے ہی ہوا تھا کیونکہ آغا صاحب کا تحقیقی کام تو اسی شاعر سے شروع ہوا تھا ، لیکن بات چیت کے دوران یہ واضح ہوا تھا کہ ان کے اور اس خاکسار کے درمیان ، ان دو شعرا کی قدر و قیمت (خصوصی طور پرباہمی موازنے کی سطح پر) تعین کرنے میں ایک خلیج حائل تھی۔ راشد صاحب سے تو میرے سمبندھ میرے انگلستان میں قیام (1972=74) کے دوران رہ چکے تھے، لیکن میرا جی کو میں صرف ان کی نگارشات کے حوالے سے جانتا تھا۔

وزیر آغا صاحب نے اپنے ایک پرانے مضمون کا ذکر کیا جس میں انہوں نے اختر شیرانی، اقبال، اورفیض کو ایک ریلوے terminusکی طرح بتایا تھا ۔ ان سے مختلف میرا جی کو ایک ریلوے اسٹیشن کی ریل پٹڑیوں کی تشبیہہ دی تھی، جہاں ہمہ وقت پٹڑیاں کسی کیبن میں بیٹھے ہوئے ایک نادیدہ ہا تھ کی shuntingکے عمل میں بدلتی چلی جاتی ہیں۔ پٹڑیاں خود کار نہیں ہیں اور وہ نا دیدہ ہاتھ بھی خود کار نہیں ہے۔ لیکن دونوں لازم و ملزوم ہونے کی حد تک ایک دوسرے سے منسلک ہونے کے باوجود اپنی express will نہیں رکھتے۔

یہ مضمون میرا پڑھا ہوا نہیں تھا، (اوران کے پاس اس وقت کمرے میں readily available بھی نہیں تھا) لیکن باقی کے کچھ شعرا سے قطع نظر میرا جی کے بارے میں (جیسے میں نے کہا) گرم بحث اس لیے ہوئی تھی کہ میں میرا جی کا زیادہ قائل نہیں تھا اور مجھے اس میں ، بطور شاعر، ’’عقل اور بے عقلی، سمجھ اور نا سمجھی‘‘ کا ایک ایسا امتزاج دکھائی دیتا تھا جس کے ذرات ریت کی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں اورمجھ جیسے کم علم کو یہ ایک کارِ صعب و عسیر دکھائی دے کہ ان کو الگ الگ ڈھیریوں میں تقسیم کیا جائے۔ آغا جی کے استعارے میں میرا جی ایک single-track ذہن کی پٹڑی کی طرح پیش ہوتا ہے جو بوقت ضرورت اپنی پٹڑی کو مختلف حصوں میں combine or separate کر سکتا ہے، جب کہ میرے خیال میں اس ریت کے ڈھیر (یعنی میرا جی کی شاعری) میں سے سمجھ اور نا سمجھی کے ذرات کو الگ الگ کرنا اور انہیں مائکروسکوپ کے نیچے رکھ کر دیکھنا کارِ محال ہے۔

میں نے ایک کے بعد ایک میرا جی کی کئی نظمیں ان کے سامنے بآوازِ بلند پڑھی تھیں اور ان کی سطروں میں مشمولہ حصص میں سے ’’سمجھ‘‘ کے، اور ’’ناسمجھی ‘‘ کے شذرات کو الگ الگ کر کے ایسے ہی پیش کیا تھا، جیسے میں کمرہ ء  جماعت میں طلبا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ہنسے تھے آغا جی، اور کہا تھا انہوں نے ، ’’آپ اپنا پروفیسری کا گاؤن اتار کر مجھ سے بات کریں تو میں زیادہ آسانی سے سمجھ جاؤں گا۔‘‘ لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا تھا کہ مجھے بھی میرا جی کی نظموں کو ایک بار پھر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل گیا تھا۔

بحثا بحثی کی اس ملاقات کے بارہ تیرہ برس بعد آج بھی میں راشد کے مقابلے میں میرا جی کو اتنا اہم شاعر اس لیے نہیں سمجھتا کہ اس نے اردو شاعری پر اپنا کچھ اثر چھوڑا بھی ہو، تو وہ دیر پا نہیں رہا۔ راشد کی گلی میں سے گذرنے والے شعرا اب درجنوں کی تعداد میں ہیں، لیکن میرا جی کے کوچے میں سے ہو کر جانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔

لیکن یہ نہیں کہ اس نے اچھی نظمیں نہیں لکھیں۔ کچھ بے حد اچھی نظمیں لکھی ہیں، جو ان نظموں سے کہیں بہتر ہیں جن میں ’’جنس ‘‘ بنفس کثیف ایک کردار کی صورت میں پیش ہوتی ہے اور قاری کے ذہن پر ایک غیر صحتمند اثر چھوڑ جاتی ہے۔
ٌپوری نظم نہیں لکھ رہا کہ طویل بھی ہے اور ایک اسی کتاب کی طرح جس کی جلد ڈھیلی ہو چکی ہو، ڈھلمل ڈھلمل کرتی ہوئی اعدامیت کی شکار ہے۔۔کچھ سطریں پیش کرتا ہوں، جن میں میرا جی بنفس خود واحد متکلم کی طرح بولتا ہے۔ (ہمیں آخر میں پتہ چلے گا کہ یہاں شاعر میرا جی ، ’’زمانہ میرا جی ‘‘ کی شکل میں بول رہا ہے۔ ہم  نے اس رات بھی آغا صاحب سے کہا تھا کہ ان نظموں کو دیکھیں اور وہ تضاد جسے Poetic logical fallacy کہا گیا ہے، اور جو ایک خوبی ہے، خامی نہیں ۔۔۔نوٹ فرمائیں۔

زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے (بیانیہ)

فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے (پہلا تصویری منظر نامہ)

یہ میں کہہ رہا ہوں (بیانیہ)

میں کوئی برائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں (بیانیہ)

تسلسل کا جھولا نہیں ہوں (پہلے منظر نامے کا منفی سایہ۔ logical fallacy)

اب اس کے بعد اس نظم میں چھ  سطریں ایسی ہیں جنہیں تسلسل کے جھولے اور شاعر کی اپنی existential position کے درمیان بانٹا گیا ہے۔ اس کے بعد تصویر وں کا ایک سلسلہ ہے، جس میں اس وجودی بیچارگی اور تنہائی کو مظاہر قدرت کے ساتھ منسلک کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ بستی، جنگل، راستے ، دریا، پربت، عمارتیں ، مقبرے، مجاور وغیرہ اٹھارہ مناظرپیش ہوتے ہیں ۔۔۔اور پھر یکلخت یہ سطریں نمودار ہوتی ہیں:

یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے
زمانہ ہوں میں، میرے دم سے ہی ان مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے
مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے
یہ کیسے کہوں میں کہ
مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں،

Advertisements
julia rana solicitors london

اتنی اچھی نظم میں بھی، افسوس صد افسوس، the penultimate line یعنی اتمامی سطر ایک مہلک خاتمہ چھوڑ کر ہمیں مایوس کر جاتی ہے۔ ’’یہ کیسے کہوں میں کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں!‘‘ ایک بچگانہ سعی ہے ، نظم میں فردیت اور کُلّیت کے اجزا کو ایک نام نہاد فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی سعی، جو ’’کھیل بچوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا‘‘ کا سا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ اسے میں ’’سمجھ‘‘ اور ’’نا سمجھی‘‘ کا امتزاج کہتا ہوں۔
ستیہ پال آنند (1991)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply