کینسر (25) ۔ چار زہر/وہاراامباکر

مڈغاسکر کے ایک پودے سے حاصل ہونے والا زہریلا کیمیکل ونکرسٹین تھا۔ یہ ایک پستہ قد بیل تھی جس میں جامنی پھول اگتے تھے۔ یہ کیمیکل 1958 میں دریافت ہوا۔ اس پر ذیابیطس کے لئے تحقیق کی جا رہی تھی جب معلوم ہوا کہ اس کی تھوڑی سی مقدار لیوکیمیا (خون کے کینسر) کے خلیوں کو مار دیتی ہے۔ لیوکیمیا کی طرح تیزی سے بڑھنے والے خلیے پروٹینز کا ڈھانچہ پیدا کرتے ہیں جو دو خلیوں کو الگ ہونے کے بعد تقسیم مکمل ہونے کے وقت کام آتا ہے۔ وینکرسٹین اس وقت مائیکروٹبیول کے کنارے سے چپک جاتا تھا اور خلیے کے ڈھانچے کو جکڑ کر مفلوج کر دیتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ لیوکیمیا کے لئے ملنے والا چوتھا زہر تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ ان چار کے ملاپ کا تجربہ کیسے کیا جائے؟
یہ تجربہ الابامہ کے ہارورڈ سکپر نے چوہوں پر ڈیزائن کیا۔ ان کی نظر میں کینسر بیماری نہیں بلکہ تجریدی ریاضی کی شے تھی۔ لیوکیمیا کے L1210 خلیے بڑی برق رفتار سے بڑھتے تھے۔ 1, 4, 16, 64, 256, 1024, 4096, 12384, 65356, 262144, 1048576 اور یوں سولہ سے سترہ دنوں میں ایک خلیے سے دو ارب خلیات وجود میں آ چکے ہوتے تھے جو چوہے کے خون کے خلیوں سے زیادہ ہوتا تھا۔
سکپر نے ان پر کئے گئے تجربات سے ڈرگز کے اثر کے بارے میں سیکھا۔ اور دو اہم دریافتیں تھیں۔
پہلی یہ کہ کیمیوتھراپی ایک خاص فیصد سے خلیات کو مارتی تھی، خواہ ان کی تعداد کتنی بھی ہو۔ اور یہ عدد کسی دوا سے خاص اور منفرد ہوتا تھا۔ فرض کیجئے کہ کسی دوا کے لئے یہ عدد ننانوے فیصد ہے۔ ایک لاکھ خلیات میں سے ایک ہزار بچ جائیں گے۔ اگلے راونڈ میں دس۔ اور یوں چار راونڈز میں یہ تعداد صفر تک پہنچے گی۔
دوسرا یہ کہ ادویات کو ملایا جائے تو مارنے کا اثر ملکر ہوتا ہے۔ مختلف ادویات سے کینسر کی مزاحمت کا طریقہ مختلف رہتا ہے، اس لئے دو ادویات ایک سے بہتر ہوتی ہیں اور تین ادویات دو سے بہتر ہوتی ہیں۔ کیمیوتھراپی کے ذریعے سکپر نے چوہوں میں لیوکیمیا کا علاج کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے جو نتیجہ نکلتا تھا، وہ یہ کہ اگر انسانوں کا لیوکیمیا چوہوں جیسا ہوا تو پھر کئی ادویات کا اکٹھا وار سودمند ہو گا۔ ظالمانہ طریقے سے کینسر پر حملہ کیا جائے۔ ڈوز اور پھر ڈوز اور پھر ڈوز دی جائے۔ اور جب ایسا لگے کہ لیوکیمیا کے خلیات ختم ہو رہے ہیں، تب بھی نہ رکا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرے اور فرائیرائیک اب اس تجربے میں چھلانگ لگانے کو تیار تھی۔ چار ادویات کو ملا کر دیا جانا تھا۔ یہ VAMP کہلایا۔ جس میں ہر حرف ایک دوا کا مخفف تھا۔ ونکرسٹین، ایمیتھروپٹینن، مرکاپٹورین اور پریڈنیسون۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار جان لیوا زہر جو زیادہ مقدار میں اکٹھے ہی دئے جانے تھے۔ یہ ایک خوفناک خیال تھا۔ اور اگر یہ ناکام رہتا تو اس سے نکلنے والے سیاسی مضمرات خوفناک ہوتے۔ یہ بچوں کو مار سکتا تھا۔ ہر ایک کو معلوم تھا کہ ایسا تجربہ کرنا رِسک ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویمپ کے انگریزی میں کئی معنی ہیں۔
۱۔ الگ حصوں کو جوڑ کر بنائی جانی والی شے جو نازک ہو۔
۳۔ بوٹ کا اگلا حصہ جو لگائی جانے والی زوردار ٹھوکر کی تمام قوت اپنے نشانے کو منتقل کرتا ہے۔
۳۔ حسینہ جو امید دلائے لیکن وعدہ وفا نہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویمپ کا پہلا تجربہ 1961 میں شروع ہوا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply