ہوئی لال ارض فلسطیں لہو سے/رحمت عزیز خان چترالی

منصور ذکی کا تعلق نئی دہلی، ہندوستان سے ہے، پیشے سے مدرس ہیں، آپ کی اردو نظم “مسئلہ فلسطین:چند سوالات” فلسطینی جدوجہد کے جذباتی منظر نامے پر روشنی ڈالتی ہے، جو دوسری جگہوں کے لوگوں کی متحرک، عام زندگی اور تنازعات کے درمیان رہنے والے فلسطینیوں کی تلخ حقیقت کے درمیان بالکل تضاد کو اجاگر کرتی ہے۔ اس نظم میں فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، اپنی قربانیوں کے ذریعے تاریخ رقم کرنے کے ان کے عزم اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے ان کی حالت زار پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ منصور ذکی کی اس شاہکار نظم کا چترال، ملتان کالام اور گلگت بلتستان کے وادی غذر میں بولی جانے والی زبان کھوار میں راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) نے ترجمہ کرکے اصل نظم کے جوہر کو محفوظ رکھنے اور اسے شمالی پاکستان کے کھوار بولنے والے وسیع قارئین تک پہنچانے کے لیے کھوار اکیڈمی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے تراجم پراجیکٹ کی طرف سے ایک ادنی سی کوشش ہے۔آپ کی اردو نظم ”مسئلہ فلسطین” اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ شاعر کا پیغام لسانی حدود سے بالاتر ہو اور اسے دیگر مادری زبانوں میں بھی تراجم کرواکر قارئین تک پہنچایا جائے۔

آپ کی نظم “مسئلہ فلسطین:چند سوالات” کا مرکزی موضوع آزادی اور انصاف کے لیے مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ نظم زندگی کی عام خوشیوں کو فلسطینیوں کے غیر معمولی مصائب سے متصادم کرکے ہمدردی کو جنم دیتی ہے۔ شاعر پوری دنیا کے مسلمانوں کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ جاری تنازعات کی تلخ حقیقتوں پر قلم اٹھائیں، منصور ذکی لوگوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں اور اس آزادی پر غور کریں جس کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تھیم یکجہتی کی اہمیت، انسانی حقوق اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے دکھوں سے نمٹنے کے لیے اقوام کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتا ہے۔

نظم میں سوچ کی ہموار ترقی اور قاری کی مصروفیت کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ نظم سوالات کے ایک سلسلے کے ساتھ کھلتی ہے، قاری کو اپنی زندگی اور جذبات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے بعد کے اشعار فلسطینی جدوجہد، قیادت اور حمایت کی عدم موجودگی، اور مسلم علماء کی فعالیت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ ساخت شاعر کے بیانیے کے ذریعے قاری کی موثر رہنمائی کرتی ہے اور جذباتی رفتار پیدا کرتی ہے۔منصور ذکی نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مندرجہ ذیل ادبی آلات کو مہارت سے استعمال کیا ہے:

امیجری: اس نظم میں فلسطینی صورت حال کی تصویر کشی کے لیے بہترین امیجری کا استعمال کیا گیا ہے، جیسے کہ “ہوئی لال ارض فلسطیں لہو سے” اور ” مٹے گل کئی گلشن رنگ و بو سے” یہ تصاویر مضبوط جذبات کو ابھارتی ہیں اور نظم کو مزید پُرجوش بناتی ہیں۔

بیاناتی سوالات: نظم کا آغاز سوالات کے ایک سلسلے سے ہوتا ہے، جو قاری کو مشغول کرنے اور فوری غور و فکر کرنے کے لیے ایک بیاناتی آلہ کا کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ” بتا تجھ کو آرام آتا ہے کیسے / تجھے رنگ دنیا لبھاتا ہے کیسے؟” خوبصورت بیاناتی سوالات پر مبنی ہیں۔

استعارہ: استعاروں کا استعمال، جیسے ” چھپائے ہوئے ہیں بغل میں جو خنجر”، چھپی ہوئی دھمکیوں اور خطرے کا احساس دلاتے ہیں اور نظم کے موضوعات میں گہرائی کا اضافہ کرتے ہیں۔

نظم کے ابتدائی سوالات قاری کو اپنے استحقاق اور نقطہ نظر کا جائزہ لینے پر مجبور کرتے ہیں، باقی اشعار نظم کے لیےسوالنامہ ترتیب دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ نظم فلسطینی جدوجہد کی طرف منتقل ہوتی ہے، جس میں تشدد اور ظلم کو بیان کرنے کے لیے خون اور پھولوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اشعار فلسطینی عوام پر یہودیوں کے ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو واضح کرتے ہیں۔

شاعر فلسطینیوں کے لیے قیادت اور بین الاقوامی حمایت کی عدم موجودگی پر سوال اٹھاتاہے اور ان کے مصائب پر دنیا کے ردعمل میں بے حس دنیا والوں کی منافقت پر آواز اٹھاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ نظم مطالبہ کرتی ہے کہ دنیا فلسطینیوں کی حالت زار پر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کو توجہ دینی چاہئیے، یہود و نصاری نے مظلوم فسلطینیوں کے خون کو جانوروں سے تشبیہ دے کر مسلمانوں کی توہین کی ہے کفار کی اس طرح کی بے حسی کی اخلاقیات پر شاعر نے سوالات اٹھائے ہیں۔

آخری بند میں شاعر مسلم علماء سے مخاطب ہے اور ان پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی بے حسی سے بیدار ہوں اور انصاف کی وکالت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ حسین و حیدر کا تذکرہ تاریخی اور مذہبی حوالوں کو مدعو کرتا ہے، جو ناانصافی کے مقابلے میں بہادر قیادت اور قربانی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ

میں ملکِ عرب سے بھی یہ پوچھتا ہوں

کہاں ہیں تمھارے حسین اور حیدر

خلاصہ کلام یہ ہے کہ منصور ذکی نظم “مسئلہ فلسطین:چند سوالات” ایک طاقتور اور جذباتی اور مزاحمتی نظم ہے جو آزادی اور انصاف کے لیے فلسطینی جدوجہد کی طرف مسلمانوں کی توجہ مبذول کراتی ہے۔ منصور ذکی کا بہترین امیجری، بیاناتی سوالات اور استعاروں خوبصورت کا استعمال فلسطین کی موجودہ صورت حال اور سنگینی کو مؤثر طریقے سے بیان کرتا ہے۔ راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کا کھوار ترجمہ اصل نظم کے جوہر کو کھوار زبان میں تراجم کرکے محفوظ رکھنے کی کوشش ہے، منصور ذکی کی اردو نظم اور کھوار زبان میں تراجم دونوں اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کا پیغام زبان کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے شمالی پاکستان کے کھوار بولنے والے وسیع تر قارئین تک بھی پہنچے۔اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے منصور ذکی کی نظم ”مسئلہ فلسطین” پیش خدمت ہے۔

“مسئلہ فلسطین:چند سوالات” (نظم)

بتا تجھ کو آرام آتا ہے کیسے

تجھے رنگ دنیا لبھاتا یے کیسے

یہ موسم کی رنگینیاں، یہ فضائیں

بھلا اس میں تو دل لگاتا ہے کیسے

خریداریاں، جشن، میلے، تماشے

تو وقت ان میں اپنا بتاتا ہے کیسے

تو اپنے نئے کل کی خاطر بتادے

حسیں خواب آخر سجاتا ہے کیسے

٭٭٭

ہوئی لال ارض فلسطیں لہو سے

مٹے گل کئی گلشن رنگ و بو سے

وہ بچے تھے، کلیاں تھی وہ ادھ کھلی سی

ہوئے وہ بھی محروم اپنے نمو سے

رقم کررہے ہیں وہ تاریخ جرأت

شہادت سے اپنی، وہ اپنے لہو سے

وہ آزاد ہیں، فکر آزاد ان کی

وہ ڈرتے نہیں ہیں ذرا بھی عدو سے

تمھیں زندگی، ان کو ہے موت پیاری

ہے سہما عدو، ان کی اس آرزو سے

٭٭٭

تم اب یہ بتاؤ کہاں ہیں وہ رہبر

وہ حریت زن کے حامی سپہ گر

کہاں ہیں طرفدار بچوں کے حق کے

کہاں ہیں وہ انسانیت کے گداگر

کہاں ہیں وہ حیواں کے حق کے محافظ

ہے کیا خون مسلم کا حیواں سے بدتر

میں ملکِ عرب سے بھی یہ پوچھتا ہوں

کہاں ہیں تمھارے حسین اور حیدر

مصالح تمھیں مصلحت ہیں سکھاتے

کہاں ہیں تمھارے وہ جرأت کے جوہر

تمھیں جاہ و عزت کی ان سے طلب ہے

چھپائے ہوئے ہیں بغل میں جو خنجر

بتاؤ کہ لب کیوں سلے ہیں تمھارے

یہ کیا منہ بھرائی کے تالے ہیں لب پر

مسلمان عالم کہاں سوگئے ہیں

وہ کیوں خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں

٭٭٭

”کھوار تراجم”

٭٭٭

” فلسطینو مسئلہ:ای کما سوالات” (نظم)

لودیت تتے آرام بویان کچہ

دنیو رنگ تتے کچہ سارئیران

ہیہ موسمو رنگینی، ہمی فضا

تھے ہیرا تہ ہردی کچہ مانیران

خریداری، اشٹوک، میلے، تماشہ

تو تان وختو ہیرا کچہ شاخسئسان

تو تان نوغ گیاک چھوچیو بچے لو دیت

حسین خوشپان کچہ پاشیسان

٭٭٭

ہوئی کروئی فلسطینو زمین لیاری

تان ژاناری بو روئے پرویلتانی ہوستان

نیویشینیان ہتیت جراتو سورا تاریخ

تان شہادتاری، تان لئیاری

ہیت آزاد اسونی، فکردی آزاد ہیتان

ہیت بوھرتوئینیان نو پھوک دی تان دشمنو ساری

پساتے زندگی، ہیتان بریک خوش

بوھرتوئیی اسور دشمان، ہیتان ہے آرزو و پوشی

٭٭٭

تو ہانیسے لودیت کورا اسونی ہتے راہبار

ہتے آزادیو حامی ہتے سپہ سالار

کورا اسونی طرفدار پھوپھوکان حقو

کورا اسونی ہتے انسانیتو گداگر

کورا اسونی ہتے حیوانان حقان محافظ

شیرا بسلمانو لئیے حیوانان ساری بدتر

اوا عربو ملکھو سار دی بشار کومان

کورا اسونی تہ حسین اوچے حیدار

مصالح تتے مصلحتو دونیان سبق

کورا اسونی تہ ہتے جرأتو خاون

تو ہیتان سار طلب عزت کوسان

کھوشتئیے اسونی کوشکو موڑتو کا کی خنجار

لو دیت کی شون کھیوت سوئیی شینی تہ

ہمیت کیاغ، قلف لیگی شیرا آپاکہ

Advertisements
julia rana solicitors london

بسلمان عالمان کورا اورئیے اسونی

Facebook Comments

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، ورلڈ ریکارڈ سرٹیفیکیٹس، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔ کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں، اس واٹس ایپ نمبر 03365114595 اور rachitrali@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply