• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جلد فیصلے کی طاقت اور درست جگہ سے پکڑنے کی تکنیک/رشید یوسفزئی

جلد فیصلے کی طاقت اور درست جگہ سے پکڑنے کی تکنیک/رشید یوسفزئی

کتوں کی لڑائی دیکھنے کا میرا پہلا ہی تجربہ بہت خوفناک تھا،اور آخری بھی۔ یقیناً ان مناظر کو من و عن بیان کرنے کیلئے امریکی ناول نگار اور کتوں کے سوانح نگار جیک لنڈن Jack London کا قلم چاہیے،اور  یہ میرے بس کی بات نہیں۔

بونیر سے تعلق رکھنے والے منجھے اور سلجھے ہوئے بیوروکریٹ   گزشتہ صوبائی حکومت میں سکریٹری گیس و پٹرولیم ، چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم اور میرے مشفق محسن و مربّی امیر اکبر خان پٹواری سے ہوتے ہوئے ان اعلیٰ عہدوں تک پہنچ گئے تھے مگر ذوق و شوق سدا سادہ و دیہاتی رہے۔ علاقے کے ڈپٹی کمشنر ہونے کی بِناء پر وہ اس شاندار مقابلے کے موقع پر مہمان خصوصی تھے  اور میں انکا مہمان عمومی ۔۔۔ سو اپنے ساتھ اکھاڑے لے گئے۔

مقابلے کا آغاز ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے دستِ  مبارک سے ہوا۔ پولیس کی اچھی خاصی نفری تعینات تھی اور نا  صرف علاقے ، بلکہ دور دور سے بھی سفید پوش کبراء و شرفاء تشریف لائے تھے۔ ڈھول باجے والے موجود تھے۔ جنوبی اضلاع سے آئے لمبی  گھنی  زلفوں والے پشتون جوان ڈھول کے پہلے ڈھپ کیساتھ روایتی پشتون ڈانس کرنے لگے جو بالآخر ایک حلقے میں قابلِ  فخر پشتون اتنڑ(رقص  کی ایک قِسم) ڈانس پر رُک گئی۔

ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کی موجودگی نے اکھاڑے اور مقابلے دونوں کو ایک رعب ،شان و شوکت اور وقار بخشاتھا۔ شرکاء و تماش بین ایسے مہذب اور شریفانہ برتاؤ کرتے تھے جیسے سب سکینڈنیویا کے شہری ہوں۔

پہلا مقابلہ ہُوا۔ لکی مروت سے آئے ایک بابا جی کا کُتا کُرک کے ایک جوان کے کُتے سے لڑا۔ باباجی پُر شکوہ پگڑی باندھے ہوئے  تھے۔ پنجے دار چپل ، جن میں پاؤں کی مہندی لگی  انگلیاں الگ الگ نظر آرہی  تھیں ۔ بابا جی کا کُتا ہار گیا۔ اکھاڑے سے باہر آئے اور  چند لمحے کیلئے اذیت ناک گہری  خاموشی میں چلے گئے ۔ پھر زور زور سے رونے لگے۔ منہ سے سبز نسوار ملے تھوک کی ایک دھار داڑھی اور سینے پر بہہ آئی۔ ہاتھ سے اپنے عزیز شکست خورد ہ کُتے  کو اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: “ اب اِسے ناگہانی موت بھی نہیں آئے  گی! اب اسکو اٹہ ٹیک ( ہارٹ اٹیک  ) بھی نہیں ہوگا  کہ میں اس سے نجات پاؤں۔ میری ساری عمر کی محنت ،محبت ،شفقت، دیسی گھی میں پکائے اور اس مردار کو کھلائے گوشت و قیمے سب عبث گئے ۔ یا اللہ میرا ہاتھ اس تک نہیں جاتا اس کو خود ہی موت بھیج! “

بہت سارے لوگوں نے باباجی کو دلاسہ دیا۔ ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ الفاظ کب ان کا مداوا کرسکتے تھے ۔ روانہ ہوئے تو درد و غم اور مایوسی نظر کی تجسیم دکھائی دیتے تھے ۔ خدا دشمنانِ  اسلام کو بھی ایسی  اذیت ناک قلبی کیفیت سے بچائے۔

دوسرے ، تیسرے ، چوتھے کے بعد  چند اور مقابلے ہوئے۔ مہمانِ  خصوصی نے دیگر اہم سرکاری مصروفیات اور وقت کی تنگی کی بناء پر  آخری مقابلہ کروانے کا کہا، سو اس پر عمل ہُوا۔
ایک اٹھائیس تیس سالہ گبرو جوان ایک خوفناک و خوانخوار بل ڈاگ Bull Dog کیساتھ اکھاڑے میں آیا۔
نظریں کبھی جوان پر جاتیں ، کبھی اس کے کتے پر ۔ جوان کا قد چھ سات فٹ کے  درمیان  ،بالکل چنار کا   درخت ، چھاتی ایک میدانِ  حشر، اکھاڑے میں کھڑا ہُوا، اِدھر اُدھر نگاہ ڈالی ۔ کتے کا پٹہ پاؤں کے نیچے رکھ کر قمیص کے زیرِ  بغل جیب سے نسوار کی بڑی پلاسٹک کی  تھیلی نکال کر ایک گولہ بنایا۔ بائیں ہاتھ کی  انگلیوں سے اوپر کا  ہونٹ دائیں طرف سے اٹھایا  اور دائیں ہاتھ سے بالکل شرعی انداز میں وہاں نسوار کا گولہ رکھا۔ اس کے بعد منہ ایک طرف سے ایسا  نظر آرہا تھا  جیسے بِھڑ نے ڈنگ مارا  ہو۔

واپس کتے کا  پٹہ ہاتھ میں پکڑا ۔ میرے تو اس درمیان ڈر کے مارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ خدا نخواستہ اگر یہ دیو نما کتا پٹے  کو ہلکا   محسوس کرکے یک دم شرکاء پر حملہ آور ہوتا! اگر بھگڈر مچ جاتی ! اعوذ باللہ ثم اعوذ باللہ اگر یہ ڈپٹی کمشنر صاحب پر چڑھ آتا ! جوان نے نسوار لگانے کے بعد واپس اس ہرمیس Hermès کا زمام سنبھالا تو مجھے خیال آیا کہ میری  زبان پر کُتے سے بچنے کی دعا “صم بکم عمی” تیزی  سے جاری تھی۔

کُتا  کیا تھا ؟ خداوند قہار وجبار کی آفت و قہر کی  ایک مجسم شکل۔ بڑے بڑے باہر کو نکلے سرخ و خونریز جبڑے۔۔۔۔جیسے عالمِ سگان کا ویمپائر ہو۔ ایک لمبی چوڑی کھردری زبان۔ مالک نے کان کاٹے  ہوئے تھے، سو سر میں دونوں طرف پُر اسرار غار نظر آرہے تھے۔

سر سے زیادہ دہشتناک صورت حال اس ویمپائر سگ کے پیچھے کی طرف تھی۔ دو بڑے بڑے سرخ و سفید فوطے! نہ لٹکے ہوئے ، نہ ہلتے ہوئے۔ بس جیسے قدرت نے آگے کی طرح پیچھے سے بھی اس کی دہشت برقرار رکھنے کیلئے توپ کے دو آتشین گولے عقب میں اوپر فکس  کرکے لگائے ہوں۔

ڈر کے مارے میرا دایاں ہاتھ بچے کی طرح لاشعوری طور پر  ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کے ہاتھ پر چلا گیا۔ سوچا ان کو کہوں سکیورٹی تھریٹ کا بہانہ بنا کر رخصت ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر    فقہاء   کی رائے اور   شریعت کے اُصول کا خیال آیا۔ دیگر آئمہ کی بہ نسبت امام مدینۃ امام مالک رحمہ اللہ کی مسلم کتا پالنے بارے رائے  کافی نرم ہے۔” ما علمتم من الجوارح مکلبین” کے تحت انکی رائے ہے کہ کوئی کتا رکھے گا تو تب تربیت دے سکے گا۔ سو کتا رکھنے میں قباحت نہیں۔ مجھے امام مالک سے بہت عقیدت ہے لیکن سامنے کھڑے مجسم قہر و غضب کو دیکھ کر امام مالک بن انس رحمہ کے اس موقف پر سخت تعجب ہوا۔ بھلا یہ بَلا   رکھنے کا بھی  کوئی سوچ سکتا ہے۔ اس کے سامنے تو سر آرتھر کونن ڈائل کے شرلاک ہومز سلسلے میں The Hound of Baskerville بھی شریف لگ رہا ہے۔ سو کتے بارے میرا  موقف بالکل امام احمد ابن حنبل اور امام ابنِ  تیمیہ والا  ہوگیا ہے ۔ بس کتا دیکھتے ہی مار دیا جائے۔ ۔۔ بلکہ ہر شہر میں ایک کتا مار سکواڈ تشکیل دیا جائے۔  خیال آیا کہ بخاری شریف کی شرح “ فتح الباری “ کی کتاب “الاشربہ” میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے ایک شاذ حدیث نقل کی ہے کہ کتا کھانا حلال ہے۔اس خیال کے آتے ہی  متلی آئی۔ یہ سامنے دہشتناک فوطوں والی آفت بھی کھانے کی چیز ہوسکتی ہے؟شاید یہ چائنیز دیوؤں کی غذا ہو تو ہو،انسان کی تو نہیں ہوسکتی، خواہ وہ موجودہ کمیونسٹ پارٹی کے چائنیز ہی  کیوں نہ ہوں۔

مجمع  کے اذہان پر ایک ہی تجسس حاوی تھا، اس بلا سے لڑنے کی جرات یا حماقت کون کرسکتا ہے؟

اچانک سامنے سے ایک عمر رسیدہ شخص اٹھ کر اکھاڑے کے مرکز کی  طرف آنے لگا۔ کافی کوشش کے بعد نظر آیا کہ ساتھ ایک چھوٹا، نحیف و نزار ریلوکٹا سا کتا بھی آرہا ہے۔ اکھاڑے میں آکر اپنے اس بلی نما کُتے کو اشارہ کرکے اعلان کیا کہ “پڑانگ “ مقابلے کیلئے حاضر ہے! پڑانگ پشتو میں چیتے کو کہتے ہیں۔

شرکاء سے بیک وقت و یک آواز قہقہے بلند ہوئے۔ کتے کا مالک آفریدی لہجے میں جھنجھلا کے بولنے لگا “ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ پڑانگ نے اس سے مقابلہ کرنا ہےاور اس کے بعد کوئی اور ہے تو وہ بھی آئے میدان میں ،اُس سے بھی مقابلہ کیلئے تیار ہے۔”

بات بگڑی تو  شرکاء و انتظامیہ نے آکے سمجھانے کی کوشش کی۔ مہمانِ خصوصی کیساتھ راقم بھی اکھاڑے  میں آیا۔ آفریدی کاکا کو سمجھانے لگے کہ خوامخواہ  کیوں اس بے چارے کی جان لے رہے ہو۔ یہ تو اس دیوہیکل کتے  کے  ایک لقمہ برابر بھی نہیں۔

پڑانگ کا مالک کب ماننے والا تھا۔ بضد رہا اور منتظمین و ایمپائرز نے بادلِ نخواستہ اجازت دیدی۔
سیٹی بجی۔۔
بُل ڈاگ غرایا،دُم ہلائی،یوں  لگ رہا تھا پڑانگ سے مقابلہ وہ بھی اپنا توہین سمجھ رہاہو جیسے ۔ تھوڑا سا گھوما،حملے کی تیاری کرنے لگا،یقیناً  ایک ہی  وار میں مقابلہ تمام کرنے والا تھا۔ غرغراہٹ کی آواز میں ولاسٹی بڑھتی  گئی ۔
آفریدی کاکا نے آواز دی” پڑانگہ ویرزہ پی، ویردانگہ!نسہ تری!” چیتے، جا حملہ کرو، پکڑو!”

چیتا اس بل ڈاگ کے پیچھے ہو لیا۔ اتنا چھوٹا اور لاغر کہ  بُل ڈاگ کے پاؤں  کے نیچے غائب ہوگیا ۔ سب کو یقین تھا بھاگنے اور چھپنے کی تاک میں ہے۔ بل ڈاگ منہ ڈالنے کے  چکر میں ایک دوبار گھوما۔ شاید اسے حریف نظر ہی نہیں آرہا تھا۔
اتنے میں اس بلی نما پڑانگ کے مالک نے پھر آواز دی” پڑانگہ نسہ ترے!” چیتے پکڑو اسے!”
بلی نما پڑانگ بل ڈاگ کے پیچھے سے تھوڑا سا اُچھلا  ۔۔ تھوڑا سا بلند ہوا۔ چھوٹی سا  منہ کھولا  اور جھپٹ کر بل ڈاگ کے دونوں فوطوں کو دانتوں میں پکڑلیا!

ایسا بزدل زندگی میں کہیں نہیں دیکھا تھا۔ چشم زدن میں یہ خونخوار خان بابا زمین پر چاروں شانے چت، پاؤں آسمان تک اٹھائے اور چیخیں فلک تک بلند کرتے ہوئے آہ و زاری کرنے لگا ۔ ایسی قابلِ  رحم حالت کہ توبہ! درد کے مارے خونچکاں جبڑوں سے جھاگ بہنے لگا۔ سر مارمار کے اردگرد شرکاء کو زبان ِ حال اور چیخوں سے نجات دلانے کیلئے فریاد کناں  تھا۔

پڑانگ کو ایسے منہ بھرکے گرم فوطوں کا لذیذ لقمہ شاید  پہلی بار ملا تھا ،وہ  چھوڑنے ولا کب تھا۔ زور دیتا ، بھینچتا گیا، تآنکہ  مقابلے  کے  اختتام کی سیٹی بجی۔ پڑانگ کے مالک نے آواز دی “ پڑانگہ پریدو ، چیتے چھوڑ دو! بس ہے!

پڑانگ نے دانت نکالے اور مالک کی  طرف پروقار و فتح مند انداز سے چلنے لگا۔ بل ڈاگ فورا ً دم دبا کر مالک کی طرف بھاگا اور اس کے پاؤں میں کروٹیں لے لے کر فریاد شروع کی کہ مجھ پر قیامت گزری تم نے جلد بچایا کیوں نہیں ؟

پڑانگ مقابلہ جیت گیا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اوّل ٹرافی دیتے ہوئے پڑانگ کے مالک سے گپ شپ میں پڑانگ کی بائیوگرافی اور تکنیک پر سوالات کیے۔ مالک نے کہا پڑانگ کو پہلی بار بازار میں گندگی کے ڈھیر پر بڑے بڑے کتوں کو بھگاتے ہوئے   دیکھا تھا۔ غور سے دیکھا تو ہر کتے کی اسی نازک و حساس جگہ پر حملہ آور ہوتا۔ اس کا  یہ طریقہ واردات پسند آیا،اس لیے  پکڑ کر  گھر لے آیا، پالا اور  ابھی تک ایک مقابلہ بھی نہیں ہارا۔

موٹیویشنل سپیکر سید قاسم علی شاہ صاحب بین الاقوامی سلیبرٹی ہیں۔ کروڑوں مزدور ، محنت کشوں اور چھابڑی فرشوں کے بجلی بلز اور نمک پیاز و ٹماٹر میں کاٹے جانے والے ٹیکسز سے اسلامی جمہوری حکومت اس کی ایک تقریر کی لاکھوں روپے  فیس ادا کرتی ہے۔ اراکین پارلیمان، سول سرونٹس، بیوروکریٹس ، جرنیلوں کرنیلوں، سفارت کاروں کے علاوہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جسٹس صاحبان کو موٹیویشنل لیکچرز دیتے ہیں۔ سب کی بھاری بھاری فیس عوام ہی ادا کرتی ہے۔ چند دن قبل صدر پاکستان کو ڈیپریسیو موڈ سے ایک موٹیویشنل سپیچ کرکے انہوں نے ہی  نکالا۔ اس تقریر  کیلئے ایوانِ  صدر میں لاکھوں کی  لاگت سے محفل منعقد کی  گئی  تھی۔ موقع و محل کی مناسبت سے پاک فوج کےجوان افسران کو خطاب کیلئے شاہ جی بذریعہ سپیشل ہیلی کاپٹر لے جائے جاتے ہیں۔

چند دن بعد پڑانگ اور بل ڈاگ کی یہ کہانی قاسم بھائی کے  گوش گزار کی۔ خوشی سے چونک اُٹھے۔ کہا دس سال کیلئے موٹیویشنل سپیچز کا  ٹاپک مل گیا۔ دوسرے دن سپریم کورٹ جج صاحبان کو لیکچر دیا  ۔ موضوع تھا “ جلد فیصلے کی طاقت اور درست جگہ سے پکڑنے کی  تکنیک” دوسرے ہفتے جنرل صاحبان کو لیکچر دیا “ حملہ آور ہونے کا موثر طریقہ اور شکست دینے کا آسان گُر” ، اسکے بعد والے مہینے سول سروسز اکیڈمی والٹن لاہور اور ملٹری اکیڈمی کاکول میں نوجوان زیرِ تربیت افسران کو لیکچر دیا “کامیابی کی کنجی۔” سب لیکچرز میں بل ڈاگ اور پڑانگ والی کہانی سناکر نتیجہ نکالتے کہ “ کامیابی کیلئے محنت ، مشقت جسمانی و مادی طاقت ضروری نہیں۔ شکست دینے کیلئے تیاری و ہتھیار نہیں چاہیے۔ بس طریقہ واردات سیکھیں۔ گُر معلوم کریں اور مقابل کی نازک اور حساس جگہ پر وار کریں ۔ درست جگہ پکڑنے کا سیکرٹ سمجھیں۔ یاد رکھیں The race is not always to the swiftest.
The game is not always to the powerful
تکنیک سیکھیں ، تکنیک۔”

Advertisements
julia rana solicitors

آپ نے آئندہ کسی موٹیویشنل سپیکر کو اس واقعہ سے اربابِ اختیار کو موٹیویٹ کرتے ہوئے سنا تو از برائے مہربانی بتائیں کہ کاپی رائٹس کسی اور کے ہیں۔
یہ بندہء حقیر ، فقیر پُر از تقصیر تاحیات ممنون رہے گا۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply