فلسطینی بچوں کی حقیقی ماں بنیے/محمد وقاص رشید

یہ غالباً 1990 کی بات ہے۔ سکول میں اچانک پتا چلا کہ آج جلدی چھٹی ہونی ہے۔ تب زندگی کی سب سے بڑی خوشی بارش یا کسی بھی غیر متوقع وجہ سے جلدی چھٹی ہوتی تھی۔ اچانک ہمارے سکول میں کالج کے لڑکے داخل ہوئے اور وہ ساری جماعتوں سے لڑکوں کو نکالنے لگے۔ وہ دھمکی آمیز لہجے میں غرّا رہے تھے کہ گھر کوئی نہ جائے ۔

کچھ دیر میں ہم میلاد چوک میں جمع ہوئے ۔ یہ زندگی کا پہلا جلسہ یا جلوس تھا جس میں طالبعلم شریک تھا۔ تجسس تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ کچھ دیر میں چند نئے الفاظ سماعتوں سے ٹکرائے۔تب سے ٹکرا ہی رہے ہیں۔  فلسطین ، یہودی ، بیت المقدس ، قبلہِ اول ، بائیکاٹ اور ۔۔ ۔آخر پہ “مالی امداد ”

سر پر یاسر عرفات مرحوم والے سکارف باندھ کر کچھ لوگوں نے چاروں کونوں سے چادریں تھام لیں اور اس میں نوٹ اور سکے گرنے لگے۔  مجھے وہ سکوں پر سکے گرنے کی آواز آج بھی یاد ہے۔ ۔۔یہ آواز مجھے ہی نہیں پوری امتِ مسلمہ کو کبھی نہیں بھولی۔۔۔

تاآنکہ کل میری بیٹی سکول سے آئی اور اس نے مجھ سے فلسطین ، یہودی ، بیت المقدس ، قبلہِ اول اور بائیکاٹ کے بعد سکول میں چندا جمع کیے جانے کے بارے میں بتایا۔ اس نے مجھ سے وہی چند سوال کیے جو میں میلاد چوک ملکوال میں سوچ رہا تھا۔

سکول میں یہ گاہے بگاہے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ فلسطین و کشمیر اور افغان جہاد کی فیوض و برکات سارے پاکستان میں پھیلی یوں نظر آئیں کہ راقم کے ساتھ پچھلی فیکٹری میں ایک انجینئر نے بتایا کہ موجودہ دور کے ایک کروڑ پتی عالمِ دین کو ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو اپنا بچپن یاد آتا ہے جب ایک رکابی میں تھوڑا سالن اور دستر خوان میں دو روٹیاں رکھ کر سرشام وہ انہیں دینے جاتا تھا۔ آج وہاں پر بنے محلات میں بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتا۔

یاد رہے کہ چوکوں چوراہوں میں فلسطین جہاد کے ہنگام  اسرائیل کی پشت پناہی پر امریکہ مردہ باد کے نعرے لگانے والے کوئی اور نہیں وہی تھے جو کچھ عرصہ پہلے امریکی ڈالروں پر افغان جہاد لڑ کر دنیا میں طاقت کا توازن قائم کرتے اس بلاک کو توڑ چکے تھے جس میں فلسطین شامل تھا۔ کیا کہا۔۔۔۔جس میں فلسطین کی سیاسی جدوجہد عالمی سطح پر شامل تھی۔

کالج میں پہنچا تو وہاں پر ایک جہادی تنظیم کا ہرکارہ ہمارا کلاس فیلو تھا۔ اسکے ساتھ ایک آدھ پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ ایک بار افغان جہاد کے بارے مندرجہ بالا سوال کر کے اگلی افطاری سے محروم ہونے کا دکھ کافی عرصہ رہا۔ جب تک روزے کی سمجھ نہیں آئی۔

کل میری بیٹی نے کہا سکول میں بچیاں بچے کہہ رہے تھے ہم نے پیپسی اور کوکا کولا نہیں پینی۔ اچانک چھناکے سے 35 سال قبل ریلوے سکول ملکوال کی کچی زمین پر ٹاٹ پر بیٹھے کچھ بچے یاد آ گئے جن کو ایک استاد PEPSI کے جوڑ کر کے بتا رہے تھے۔ اسکے بعد کالج میں جہادی بھائی کوکا کولا کو الٹا کر کے پڑھنے کی یہودی سازش کو بے نقاب کرتے پائے گئے۔

سر کی سیاہی روشنائی بن کر قلم و قرطاس کی زینت بنی، کچھ لکھنے پڑھنے جوگا ہوا اور نعرے لگانے کی عمر گئی تو پتا چلا۔۔۔۔۔۔

لپٹنا ، پلٹنا پلٹ  کر  جھپٹنا

“لہو” گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

(آپ یہاں لہو کی بجائے جیب لگانا چاہیں تو اعتراض نہیں )

پہلا سوال جو میرے ذہن میں آیا تھا وہ یہ تھا کہ جب عہدِ حاضر کے زمینی حقائق کے سامنے  آپ عملی طور پر مکمل طور پر سر بسجود ہیں تو جلسے جلوسوں میں گفتار کے غازی بنتے ہوئے اس سے متضاد منظر نامہ پیش کرتے ہی کیوں ہیں۔ کیوں نہ عمل کو بھی زمینی حقائق کے تابع کیا جائے۔ یاایھا الذین آمنو لما تقولون مالا تفعلون (اے ایمان والو وہ بات کہتے ہی کیوں ہو جو کرتے نہیں )

پاکستان میں کشمیر اور افغان جہاد میں دوسروں کے بچوں کو شہادت کے بعد جنت الفردوس کے ٹکٹ بانٹنے والے اپنے بچوں کو انہی یہودو نصاری کے ہاں تعلیم و کاروبار کے ٹکٹ خرید کر دیتے رہے۔ یہ بتانا ضروری نہیں کہ دونوں ٹکٹوں کی  ادائیگی روپے نہیں ڈالروں میں ہوئی۔

بھئی سات سمندر پار چھوڑیں جب یہاں چند کلومیٹر پار کرنا آپکے لیے قابلِ عمل نہیں اور درست طور پر نہیں تو یہ ہر کچھ عرصے بعد جوشِ خطابت میں سیاق و سباق اور محل سے ہٹا کر قرآنِ پاک کی آیتیں سنانا اور مسلمان جنگجوؤں کے قصے سنا سنا کر لوگوں کا لہو گرمانا کیا ہمیشہ کی طرح آخر میں چادر کے چار کونے پکڑنے کے لیے ہے۔

خدا کی قسم چادر کے چار کونے پھیلنے پر اعتراض نہ ہوتا اگر یہ سفید چادر نوٹ اور سکے نکال کر مظلوم فلسطینیوں کے کفن ہی تک کے لیے پہنچ پاتی۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ فلسطین کو پراکسی وار کا تختہِ مشق بنانے والے ممالک میں سوشل میڈیا ان خبروں پر ماتم کناں ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے آنے والا پانی ، بجلی ، گیس اور انٹرنیٹ بند کر دیے گئے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یہ تمام ضروریاتِ زندگی اسلامی ممالک سے کیوں نہیں آ رہیں۔؟ چلیے یہی سوچیے گا کہ جس اردن کے بادشاہ کے پاس بیت المقدس کا انتظام ہے وہیں سے بطورِ دینی خدمت کیوں نہیں آ رہیں ؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ 75 سال سے جمعہ کی نمازوں میں   حضرت عمر رض اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے حکمرانوں کی دعائیں مانگتے ہم مسلمان یہ کیوں نہیں سوچتے کہ “توفیق ” کی یہ بے معنی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ؟

المختصر یہ کہ میرے بچپن سے لے کر میرے بچوں کے بچپن کی لگ بھگ چار دہائیوں میں اگر آج بھی ہمارے پاس حل دانتوں سے اسرائیلی پرچم پھاڑنا ، فلش ٹینکی میں کوکا کولا بھرنا ، اسرائیلی پرچم پر پیشاب کرنے کی ویڈیو جاری کرنا ، میک ڈونلڈ میں کام کرتے دیہاڑی داروں کو بے روزگار کرنا اور ان سب کی ویڈیوز اور پوسٹس چھوٹی “f” والی فیس بک پر لگانا ہی ہے تو خدارا ، آپکو اللہ رسول کا واسطہ ، اپنے بچوں کے صدقے فلسطینی مظلوم بچوں پہ رحم کھائیں۔

وہ ایک بچے کی دعوے دار دو ماؤں کا قصہ تو یاد ہی ہو گا کہ جب قاضی صاحب نے کہا کہ بچے کو درمیان سے کاٹ کر دونوں کو آدھا آدھا دے دیا جائے تو اسکی حقیقی ماں نے کہا نہ نہ آسکو مارو نہ ، بے شک اس عورت کو دے دو۔ اہلِ حکمت جان گئے کہ یہ اصلی ماں ہے۔

اگر فلسطینی بچوں کو آپ واقعی اپنا سمجھتے ہیں تو اس ماں کی طرح اپنی ممتا اور پدری شفقت کے خراج میں انکی زندگی کی خیر مانگیں انہیں جینے دیں انہیں زندہ رہنے دیں۔ وگرنہ آپ دوسری عورت کی طرح ہیں اس جھوٹی ماں کی طرح جس نے کہا ٹھیک ہے کاٹ کر آدھا مجھے دے دو۔

ان آدھے جسموں کو خطابت کے جوش پر جذباتیت کی ہانڈی میں پکا کر ہاری ہوئی نفسیات کے دستر خوان پر مت سجائیے۔ انہیں پورے جسم رہنے دیجیے۔

ہر جبر ، استبداد ، دھونس ، حق تلفی اور ظلم و ستم کی مزمت ۔ سیہونی شدت پسند ذہنیت کی جانب سے نہتے معصوم فلسطینوں کا خون ناحق بہانے کی شدید مذمت مگر آگ میں جلانے والے سفاک اور ظالم دشمن اور آگ میں دھکیلنے والے بے حس دوست دونوں قابلِ مذمت ہیں۔

حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کا حاصل کیا ہے۔ یہی کہ دنیا کی سب سے بڑی جیل کہلانے والے غزہ میں پہلے قیدی زندہ تھے اور اب تو وہ غزہ انسانوں کا قبرستان بنا دیا گیا۔ اگر حماس کے سینے میں اصلی ماں والا دل ہوتا تو وہ کہتی میرے بچے کو مت مارو۔۔۔اسے جینے دو۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن غور کیا تو میلاد چوک ملکوال سے اسکنددرآباد تک بدلا کچھ بھی نہیں وقت کے پلوں کے نیچے سے ایک پوری نسل کا خون پانی بن کر بہہ گیا۔۔۔ہاں ہاں ایک چیز بدلی کہ میلاد چوک میں سکوں کی آواز تھی اور اب سکے فلسطینیوں کی جانوں کی طرح بے وقعت ہوئے ۔ اب چاروں کونوں سے پکڑی ہوئی چادروں پر نوٹ گرتے ہیں نوٹ۔ اور نوٹوں کی آواز نہیں ہوتی۔ یاد آیا خدا کی لاٹھی کو بھی بے آوز کہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply