جغرافیہ کے قیدی (2) ۔ روس ۔ جغرافیہ/وہاراامباکر

روس بڑا ہے۔ بہت بڑا۔ بہت ہی بڑا۔ اس میں گیارہ ٹائم زون ہیں۔ ساٹھ لاکھ مربع میل پر مشتمل یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس کے جنگل، جھیلیں، دریا، منجمد علاقے، میدان، تائیگا، پہاڑ سب ہی بڑے ہیں۔ ریچھ اس ملک کی علامت ہے۔ کبھی نیند میں، کبھی غراتا ہوا، کبھی خونخوار۔ روسی اس کو medved کہتے ہیں جس کے معنی “شہد کے رسیا” کے ہیں۔
یورپ اور ایشیا میں پھیلے اس ملک میں کوہِ یورال کے مغرب میں یورپی روس ہے۔ مشرق میں وسیع و عریض سائبیریا۔ اکیسویں صدی میں بھی ٹرین کے سفر میں اس کو پار کرنے میں چھ دن لگتے ہیں۔
چرچل نے اس کے بارے میں 1939 میں کہا تھا کہ “یہ ایک پہیلی ہے جو کہ معمے میں لپٹی ہے جس کے اندر کچھ پرسرار ہے۔ لیکن شاید اس کو سمجھنے کی ایک کنجی ہو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولادمیر پیوٹن کہتے ہیں کہ وہ مذہبی شخص ہیں اور روسی آرتھوڈوکس چرچ کے پیروکار ہیں۔ اگر وہ رات کو سونے سے پہلے دعا کرتے ہیں تو خدا کو کہتے ہوں گے کہ “یوکرائن میں کچھ پہاڑ کیوں نہ رکھ دیں؟”
اگر یوکرین میں پہاڑ ہوتے تو شمالی یورپی میدانوں سے تاریخ میں بار بار ہونے والے حملے نہ ہوتے۔ اور چونکہ روس کے پاس پہاڑ رکھ دینے کی آپشن نہیں ہے تو اپنے مغرب کے میدانوں کو کنٹرول کرنے کے بارے میں بہت حساس ہے۔
اور جب پیوٹن ان پہاڑوں کا نہیں سوچ رہے ہون گے تو پھر پیزا کے بارے میں۔ خاص طور پر پیزا کے سلائس کی شکل کے علاقے کے بارے میں جو کہ ان کے مغرب میں ہے۔
اس سلائس کا پتلا حصہ پولینڈ ہے۔ فرانس سے یورال تک شمالی یورپی میدان صرف تین سو میل چوڑا ہے جو بحیرہ بالٹک سے کوہ کارپیتھین تک ہے۔ اور اس شمالی یورپی میدان میں بلجیم، نیدرلینڈز، شمالی جرمنی، مغربی اور شمالی فرانس اور پولینڈ آتے ہیں۔
روسی نقطہ نظر سے یہ دو دھاری تلوار ہے۔ پولینڈ ایک تنگ راہداری ہے جہاں پر روس بوقتِ ضرورت اپنی فوج دشمن کو روکنے اور ماسکو کی حفاظت کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن یہاں سے اس کی چوڑائی زیادہ ہونے لگتی ہے اور جب تک یہ روس کی سرحد تک پہنچتا ہے تو یہ دو ہزار میل چوڑائی کا ہو جاتا ہے اور یہ چپٹی سطح ہے جس کا دفاع بڑی فوج کیلئے بھی مشکل ہے۔ لیکن روس کبھی اس سمت سے فتح نہیں ہوا۔ اور اس کی جزوی وجہ strategic گہرائی ہے۔ جب تک کوئی فوج یہاں تک پہنچے، اس کو رسد کے لئے بہت ہی لمبی لائن درکار ہے۔ یہ وہ غلطی ہے جو نپولین نے 1812 میں اور ہٹلر نے 1941 میں کی تھی۔
اسی طرح روس کے مشرقِ بعید میں جغرافیہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ ایشیائی روس کے وسیع برفیلے میدان فوج اندر لانا بہت مشکل ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ سوچیں کہ کوئی روس پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہو گا لیکن روسی ایسا نہیں سمجھتے اور اس کی اچھی وجہ ہے۔ پچھلی پانچ صدیوں میں مغرب کی سمت سے ان پر کئی بار حملہ کیا جا چکا ہے۔ 1605 میں پولینڈ نے، 1708 میں سویڈن کے چارلس بارہ نے۔ فرانس کے نپولین نے 1812 میں اور دو مرتبہ جرمنوں نے 1914 اور 1941 کی جنگِ عظیم میں۔ اگر کریمییا کی 1853 سے 1856 کی جنگوں کو شامل کریں تو نپولین کے بعد اوسطا 33 سال میں ایک بار یہ شمالی یورپی میدانوں میں حالتِ جنگ میں تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے آخر میں روسیوں نے یہاں کا کچھ علاقہ ضم کر کے سوویت یونین میں شامل کر لیا۔ 1949 میں NATO قائم ہوئی۔ جس کا ایک بڑا مقصد سوویت خطرے کو روکنےا تھا۔ اس کے جواب میں یورپی کمیونسٹ ریاستوں نے 1955 میں نے وارسا پیکٹ کیا جو کہ 1980 تک زنگ آلود ہو چکا تھا اور 1989 میں برلن دیوار کے ساتھ ہی گر گیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply