شطرنج یا زندگی؟۔۔فرزانہ افضل

کچھ لوگ زندگی کو شطرنج کے کھیل کی مانند سمجھتے ہیں اور اسی طرح سے زندگی گزارتے ہیں ایسے لوگ بہت ہی الجھی ہوئی سوچ کے مالک ہوتے ہیں، نہایت خود غرض ہوتے ہیں، لہذا بے حس بھی ہوتے ہیں، ہر بات میں نفع نقصان سوچتے ہیں، مگر نفع صرف اپنے لیے ہو، بھلے دوسروں کا نقصان ہو خواہ معاشی، سماجی یا جذباتی، بس ان کے معاملات بہترین چلتے رہنے چاہیے۔ یہ لوگ چونکہ زندگی کو شطرنج کی بساط کی مانند سمجھتے ہیں لہذا نہایت شاطر بھی واقع ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے گھٹیا عزائم کی تکمیل کیلئے دوسروں کو اپنی انگلیوں پر نچانا اور ان کا استعمال کرنا بخوبی جانتے ہیں بلکہ زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کام میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی چالوں میں کامیاب ہونے کے لئے دوسرے لوگوں کو شطرنج کے پیادوں کی مانند استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسرے لوگ ان شاطر اور مکار لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر خوشی خوشی ان کی چالوں کے مہرے بنتے ہیں۔ کچھ لوگ تو انجانے میں استعمال ہوتے ہیں، مگر کچھ لوگ بظاہر تعلیم یافتہ اور معاملہ فہم ہونے کے باوجود بھی ان کے شکنجے میں آ جاتے ہیں، اور ان شطرنج کے ماہر کھلاڑیوں کے ساتھ پر فخر اور خوشی محسوس کرتے ہیں ،والدین نے جو اچھی تربیت کی ہوتی ہے وہ بھی سب بھول جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ استعمال ہونے والے لوگ یعنی پیادوں کو درحقیقت دنیا خصوصاً کمیونٹی کا زیادہ تجربہ نہیں ہوتا، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ پرانے زمانے کی طرح کسی اندھیرے گاؤں سے کوئی دیہاتی نیا نیا شہر آئے اور آتے ہی سب سے پہلی نظر آنے والی روشنی میں اس کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ ایسے لوگ جن کی نظر کی طاقت کم روشنی سے ہی دھندلا جائے ، وہ چکاچوند روشنیوں کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آسان الفاظ میں بات کریں تو ان دوسری قسم کے لوگوں کا نہ تو کوئی تجربہ ہوتا ہے ، نہ ہی معاملہ فہمی اور نہ ہی دانشمندی، یعنی انگریزی کے ایک لفظ کے مطابق ان کو کوئی ایکسپوژر نہیں ہوتا لہذا معمولی سی چیز بھی بہت بڑی دکھتی ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق چونکہ یہ دوسری قسم کے لوگ ان مکار لوگوں سے خاصے متاثر ہو جاتے ہیں ، اندر ہی اندر یہ بھی ان کی روش پر ہی چل نکلتے ہیں، اور شطرنج کی بساط کے مہرے بنتے بنتے شطرنج کے اصولوں کو سیکھ لیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ خود بھی شطرنج کھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمیشہ برائی ہی برائی کو جنم دیتی ہے اس طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اور شطرنج کے ان کھلاڑیوں کی تعداد معاشرے میں بڑھتی جاتی ہے۔ کیوں ہم زندگی کو زندگی سمجھ کر نہیں جیتے۔ زندگی ایک دوسرے سے محبت، احساس، عزت ، بھلائی اور صلہ رحمی سے کیوں نہیں گزارتے۔ خود غرضی، انا پرستی بلکہ جھوٹی انا کا پرچار ، اپنی غلطی پر ڈٹے رہنا ، کبھی غلطی کا اعتراف نہیں کرنا ، یہ سب رویے تو ایک فیشن بن گۓ ہیں کسی بات میں معذرت یا اپنے بیجا رویئے پر معافی مانگ لینا تو سراسر شان کے منافی ہے۔ خود غرضی اور مادہ پرستی مہنگائی کی طرح بڑھتی جا رہی ہے۔ یاد رکھیے زندگی کھیل کا میدان یا شطرنج کی بساط نہیں ہے جس میں ہار جیت کو جینا مرنا سمجھ لیا جائے، یوں تو کھیل کے میدان اور شطرنج کی بازی کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔ مگر یہ مخصوص لوگ بازیاں جیتنے کے لیے اخلاق و کردار سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوتا ہے مگر ان کے ہاتھوں استعمال ہونے والے لوگ اگر مفید و مفت مشورے اور نصیحت کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں یعنی زندگی کو اچھی سمجھ بوجھ ، اخلاق اور دور اندیشی سے گزاریں، صحیح اور غلط میں فرق کرنا سیکھیں ، اچھے اور بُرے لوگوں کی پہچان کریں ، اپنے فیصلوں میں جلد بازی اور جذباتیت کی بجائے دانشمندی سے کام لیں، زندگی کے راستوں پر دوڑنے سے پہلے چلنا سیکھ لیں ، تو یقیناً ان کی زندگی اور کیرئیر میں کامیابی یقینی ہے ۔ ایک اور بات یاد رکھیے۔ معاشرے میں راتوں رات عزت حاصل کرنا ناممکن ہے ، اپنا مقام اور جگہ بنانے کے لیے سالوں کی محنت درکار ہوتی ہے، لہذا زندگی کو ٹھہراؤ ، توازن اور باوقار طریقے سے گزاہے ۔ دعا ہے کہ محبت کی طاقت ، طاقت کی محبت پر غالب آجائے اور زندگی امن اور سکون کا گہوارہ بن جائے۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply