سکندر کی فارس کے خلاف فتح ایک موزَیک میں دکھائی گئی جو جزواً ایک زلزلے میں تباہ ہونے کے باوجود دنیا کی عظیم ترین موزیک شمار ہوتی ہے۔ اس حصے میں سکندر کے وار سے ایک فارسی مر رہا ہے۔ اُس کی آنکھوں میں خوف تو نہیں مگر پریشانی اور نااُمیدی دیکھی جا سکتی ہے، اور کچھ حیرت بھی۔ شاید اُسے لاکھوں کی فوج کا حصہ ہونے کے باوجود چند ہزار کے یونانی لشکر سے شکست کھانے پر حیرت ہو۔
موزیک کے باقی منظر میں سکندر اپنے بیوسی فالس پہ سوار ہو کر داریوش کے رتھ سے چند فٹ کے فاصلے پر ہے۔ (گجرات کے قریب پھالیہ کا نام اِسی بیوسی فالس کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، کیونکہ سارے ہی علاقوں کو سکندر کی آمد کی روایت بیان کرنے کا شوق ہے)۔
یہ تصویر جس بڑے موزَیک کا حصہ ہے، وہ مختلف رنگوں کے پتھر کے پندرہ لاکھ ٹکڑوں سے بنایا گیا۔ پتھر میں سموئے جانے والے جذبوں سے بڑھ کر پائیدار چیز اور کوئی نہیں۔ حضرت موسیٰ کو احکام عشرہ میں دیا گیا ایک حکم یہ بھی تھا کہ تو میرے سوا کوئی مورت نہ بنانا۔ اِس مورت والے چکر کو عربوں نے زیادہ ہی سنجیدگی سے لے لیا، اور بعد ازاں مسیحیوں نے بھی بت شکنی کی روایت کچھ عرصہ اپنائی۔ لیکن یورپ کچھ صدیوں بعد اس دیوانگی میں سے نکل آیا اور کلاسیکی کو دوبارہ بحال کر کے نشاۃ ثانیہ برپا کی۔ کل کو ہماری نشاۃ ثانیہ (دوبارہ جنم) ہو بھی گئی تو کون سا کلاسیکی ہے جسے بحال کیا جائے گا؟
سو ہمارے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ محض کالونیل ازم کا ماتم کرنے کی بجائے مجموعی انسانی میراث کے دھارے سے خود کو منسلک کریں۔ یہ میراث یورپ میں مرکوز رہی ہے، لیکن یورپ میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اِس نے علم اور فنِ تعمیر، آرٹ اور زبان وغیرہ مشرق اور سے ہی لیے۔
قدیم یونان کے متعلق تہذیب کی کہانی کی دوسری جلد اُردو پڑھنے والوں کو شاید اِس انسانی میراث سے جوڑ تو نہ سکے، لیکن متعارف ضرور کروا دے گی۔ یہ بشریات، سماجیات، سائنس، تاریخ، آرٹ، ادب اور ادبی تنقید، آثاریات وغیرہ جیسے شعبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ کے لیے نہایت مفید ہو گی۔ مجھے انتہائی مسرت ہے کہ اِس کے ایک سو سے زائد پری آرڈرز موصول ہو چکے ہیں اور کتاب بیس دسمبر تک چھپ جائے گی۔ جو منتظر دوست پری آرڈر کرنا چاہتے ہیں، وہ براہ راست مجھ سے رابطہ کر لیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں