• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فلم ریویو: المصیر ( سوانح ابنِ رشد اور تاریخ اندلس پر مبنی فلم )-احسن رسول ہاشمی

فلم ریویو: المصیر ( سوانح ابنِ رشد اور تاریخ اندلس پر مبنی فلم )-احسن رسول ہاشمی

عباسی دورِحکومت میں آئے روز مختلف فرقوں کی پیدائش اور باہمی اختلافات اس قدر بڑھ گئے تھے کہ عوام الناس کے درمیان اتحاد قائم کرنا مشکل ہو گیا۔ تب عباسی خلفاء کے پاس اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ نو آموز فرقوں کو مذہب کےعلاؤہ کسی ایسے بندھن سے باہم مربوط کیا جائے کہ ان کی حاجتیں ایک مرکز پر آجائیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انھوں علم و فنون (فلسفہ) کا سہارا لیا اور یہ تدبیر کام کر گئی جس نے ملک کے طول وعرض میں ایک علمی انقلاب برپا کر دیا۔ خلیفہ کے ان اقدام نے مذہبی طبقہ میں سراسیمگی پیدا کر دی اور انھوں نے اس کے خلاف عوام الناس کے دلوں و دماغ میں یہ بات بٹھا دی کہ فلسفہ اور اس پر مبنی تمام کتب کفر کا سر چشمہ ہیں اور جو بھی ان کا پرچارک ہے وہ بدعتی اور دہریہ ہے۔
ملک بھر میں فلسفیوں کے کتب خانوں کو نظرِ آتش کیا گیا اور انھیں حکومتی عہدوں سے بر طرف کر دیا گیا۔ بغداد کے ایک قاضی کے کتب خانے کو محض اس لیے جلا دیا گیا کہ اس کے پاس ابنِ سینا کی تصنیفات کی جلدیں موجود تھیں۔ ایسا ہی ایک واقع عبد القادر جیلانی کے بیٹے عبدالسلام کے ساتھ پیش آیا، کہ مخصوص ذہنیت کے ہاتھوں یرغمال لوگوں نے یہ مشہور کر دیا کہ یہ بے دین اور صفاتِ باری کا منکر ہے اس الزام کے چلتے انھیں گرفتار کر لیا گیا اور جب ان کے کتب خانے کی تلاشی لی گئی تو ان میں چند فلسفے کی کتب موجود تھیں۔ خلیفہ ناصر کے حکم سے ان کی کتب کو ڈھیر لگا کر آگ لگا دی گئی اور انھیں قید کر دیا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب ہر چہار جانب فلسفہ و حکمت کی درسگاہیں ویران ہو گئیں اور سائنسی تحقیق و جستجو کی روح بالکل ہی مردہ ہو گئی تھی۔ یہی حال اندلس کا تھا جہاں فلسفہ کا درس دینا تو درکنار اس متعلق بات کرنے پر بھی لوگ بھڑک اٹھتے اور فساد پر آمادہ ہو جاتے تھے، ایسا ملک جہاں فلسفہ میں انہماک رکھنا کفر کا موجب خیال کیا جاتا ہو، وہاں ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جس کے فلسفے اور علم و دانش نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور آج ہم اسے ابنِ رشد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ابنِ رشد فلسفہ کے علاؤہ ریاضی، طب اور علمِ فلکیات کا بھی ماہر تھا۔ وہ ارسطو کو اپنا امام سمجھتا تھا، اکثر وہ اپنے لیکچرز میں ارسطو کی تعلیمات پر سیر حاصل گفتگو کرتا تھا۔ ابنِ رشد پر ارسطو کے فلسفہ کا رنگ اس قدر غالب تھا کہ اس نے ارسطو کی تصنیفات کی شرحیں لکھیں اور یہاں تک کہا کہ عقائد کی صحیح تشریح وہی ہے جو ارسطو کے مسائل کے موافق ہے۔ وہ فلسفہ اور شریعت میں موافقت پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس نے دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ فلسفہ مذہب کے خلاف نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی ٹکراؤ پایا جاتا ہے اور یہی اس کا جرم بن گیا، اس کے حاسدین اسے سخت زک دینا چاہیے تھے۔ انھوں نے ابنِ رشد کے خلاف سازشیں کرنا شروع کر دیں۔خلیفہ منصور جنگ سے لوٹ کر اشبیلیہ آیا تو ابنِ رشد کے دشمنوں نے اس پر بہتان لگایا کہ یہ زہرہ کو دیوی کہتا ہے، کفریہ کلمات ادا کرتا ہے اور ایسے نظریات کا پرچار کرتا ہے جو گمراہ کن ہیں۔ ابنِ رشید نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا اور اپنے حق میں دلائل دیے لیکن عوام کی بے چینی اور افراتفری کو دیکھتے ہوئے منصور نے جھوٹی شہادتوں پر یقین کرتے ہوئے ابنِ رشد کو بے دین و دہریہ قرار دیا۔
قرطبہ کی جامع مسجد میں مجمع کے سامنے اسے پیش کیا گیا۔ حاسدین نے بدعتی و دہریہ کے نعرے لگائے اور یہاں تک کہا کہ وہ یہودی ہے اور بظاہر مسلمان بنا ہوا ہے۔عوام میں برہمی دیکھ کر منصور پریشان ہو گیا۔منصور جو خود فلسفہ پرست تھا اب اسکی مخالفت پر مجبور تھا۔ حالات کو قابو کرنے کے لیے اس نے حکم دیا کہ فلسفہ و منطق کی جو بھی کتب ملیں انھیں نظرِ آتش کر دیا اور جو ان نظریات کا پرچار کرے گا اسے سخت سزا دی جائے۔ ابنِ رشد کی گرفتاری و جلاوطنی پر مخالفین نے جشن منایا اور نظمیں لکھیں۔ ابنِ رشد کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ مسجد کے دروازے پر کھڑا ہو کر لوگوں سے معافی مانگے۔ اسے جامع مسجد کے صدر دروازے پر برہنہ سر کھڑا کیا گیااور لوگوں نے اس کی سخت تذلیل کی لیکن وہ مسکرا رہا تھا اور اس نے صدا بلند کی کہ
” خیالات کے پنکھ ہوتے ہیں، انھیں پرواز سے (لوگوں تک پہنچنے سے)کوئی نہیں روک سکتا”
آج کی زیرِ بحث فلم انہی حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ اس فلم کا سیٹ اور کاسٹیوم ڈیزائن اپنی مثال آپ ہے، عموماً ایسے موضوعات پر فلم بنانا مشکل امر ہے لیکن یوسف شاہین نے واقعات کو حقیقت کے قریب ترین پیش کرنے کے لیے ہر چیز کو بڑی باریک بینی اور مہارت سے پیش کیا ہے کہ دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے آپ وہاں موجود ہیں اور تمام تر واقعات آپ کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔ فلم میں عقائد، فلسفہ، ثقافت، امور سلطنت، محبت، فن اور موسیقی کو بڑے کھلے اور بولڈ انداز میں پردہ سکرین پر پیش کیا گیا ہے۔ یوسف شاہین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر کسی کےخیالات و افکار منفرد اور عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کے اظہارِ رائے پر قدغن لگا دیں یا اس کو قتل کر دیں۔
اگر آپ تاریخ اور فلسفہ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ فلم آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply