جزیرہ تاروت کا قدیم قلعہ۔۔منصور ندیم

23 ستمبر سعودی عرب کا یوم الوطنی “قومی دن” کہلاتا ہے ،اس دفعہ سعودی عرب نے اپنا 90 سال پورے ہونے پر حسب روایت عام تعطیل کا اعلان برقرار رکھا، موقع غنیمت جان کر ہم نے کہیں جانے کا فیصلہ کر لیا، دوپہر کو شریف اللہ کو فون کیا، انہیں گھر سے لیا اور اس دفعہ ہم نے جزیرہ تاروت کے معروف قلعے کی سیر کی ٹھانی، یوں تو میں جزیرہ تاروت کئی بار جاچکا ہوں۔ لیکن اس دفعہ خصوصاً ہمارا ارادہ قلعہ تاروت کو مکمل طور پر دیکھنے کا تھا۔

یہ جزیرہ تاروت (Tarut Iceland) سعودی عرب کے ضلع شرقی (Eastern Province) میں آتا ہے، جزیرہ تاروت خلیج فارس (Persian Gulf) میں قشم جزیرے کے بعد اس خطے کا رقبے کے اعتبار سے دوسرا بڑا جزیرہ ہے اور سعودی عرب کے مشرقی ساحل کا سب سے بڑاجزیرہ ہے، جزیرہ تاروت، جزیرہ المسک اور الولو کے درمیان واقع ہے۔ سعودی عرب کے شمال میں واقع یہ بڑے جزائر کہلاتے ہیں۔ یہ خلیج فارس سے 6 کلومیٹر پر بالکل کنارے پر واقع ہے۔ اور اس جزیرے کا مجموعی رقبہ 70 اسکوائر کلومیٹر پر ہے۔

 

سعودی عرب میں جب بھی جزیرہ تاروت کا تذکرہ ہوگا، تو قلعہ تاروت کا نام بھی زبانوں پر آئے گا۔ یہ سعودی عرب ہی نہیں بلکہ سعودی عرب نے جب سے سیاحتی مقامات کی طرف توجہ دی ہے، قلعہ تاروت کو یونیسکو نے بھی دنیا کے تاریخی مقامات میں شامل کر لیا ہے، اس نسبت سے اس وقت قلعہ تاروت دنیا بھر کے سیاحوں کے سیاحتی پروگرام کا حصہ بن چکا ہے۔

ہم شام کے آخری پہر قلعہ تاروت پہنچے تھے، قلعہ تاروت موجودہ حالت میں ایک ٹیلے پر بنا ہوا ہے، یہ ہجری ادوار کی قدیم ترین بستیوں کا حصہ ہے، بقول مؤرخین یہاں یکے بعد دیگرے پانچ تہذیبی تمدنوں نے جنم لیا ہے۔ قلعہ تاروت کے آس پاس کئی پرانی تہذیبوں کی باقیات موجود ہیں اور کچھ باقیات امتداد زمانہ کے ساتھ ختم ہوچکی ہیں۔

قلعہ تاروت کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے، کچھ مورخین کے خیال میں قلعہ تاروت کی تعمیر 1500 سال قبل بتائی جاتی ہے۔ یہ قلعہ 600 مربع میٹر پر ایک اونچے ٹیلے پر سطح مرتفع پر بنا ہوا ہے۔ جبکہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ یہ قعہ عیونیہ بادشاہت کے دور میں پرتگیزیوں نے 1521 اور 1525ہجری کے عرصے میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ پرتگالیوں نے یہ قلعہ اس عہد کے دوران دشمنوں کے حملے سے خود کو بچانے کے لیے تعمیر کیا تھا۔ بعض اسے قرامطہ کےدور کی یادگار بھی سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہاں کے مقامی افراد کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ کچھ صدیاں پہلے جب قرامطہ قبیلہ حجر اسود اٹھا لایا تھا، وہ انہی مقامات پر لے کر آئے تھے۔

جب ہم قلعے کے قریب پہنچے، قلعے میں حکومت کی طرف سے ایک داخلی دروازہ لگایا گیا ہے ، اور وہاں ایک چھوٹا سا دفتر بھی ہے، اور دروازے کے پاس رہنمائی کے لئے ایک مقامی شخص بھی متعین تھا، قلعے کی حالت خاصی مخدوش ہوچکی ہے، قلعہ کے داخلی دروازے کے ساتھ ہی چند قدم کے فاصلے پر سامنے کی طرف ایک قدرتی چشمہ موجود ہے، یہ پانی کا چشمہ اس قلعے کی تعمیر سے قدیم ہے، اور ممکنہ طور پر پر قلعے کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اسی چشمے کی بنیاد پر یہ قلعہ چشمہ سے قریب بنایا گیا تھا، چشمے کی تاریخ کے حوالے سے اور چشمے کے قریب موجود پتھروں اور قلعے کے تعمیراتی پتھروں کے درمیان ماہر آثار قدیمہ (آرکیالوجسٹ) کے مطابق کئی صدیوں کا فاصلہ موجود ہے ۔ یہ پانی کا چشمہ پچھلی تہذیبوں کے لئے بھی پانی کی سہولت کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔

اس قلعہ تاروت میں چار برج ہیں۔ ان میں سے تین اب تک موجود ہیں جبکہ ایک تاریخی معرکے کے دوران منہدم ہوگیا تھا۔ برجوں کا طرز تعمیر وہی ہے جو پرتگالیوں نے عمانی قلعوں میں استعمال کیا تھا چند سال پہلے تک قلعہ تاروت جس چٹان کے اوپر واقع تھا اس کے آس پاس کھجوروں کے جنگل تھا، مگر اب قلعہ تاروت کے اطراف بہت ساری جدید و قدیم عمارتیں موجود ہیں۔

قلعہ تاروت اس عہد میں ایک اہم سمندری چھاؤنی شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ سعودی عرب کی تاریخ میں یہ آثار قدیمہ اہم مقامات میں سے ایک ہے۔ ماضی قدیم میں جزیرہ تاروت اہم بندرگاہ مانی جاتی تھی۔ اس کے قریب خلیجِ، بحرالعرب اور غیرمنقسم ہند سے جہاز آکر لنگر انداز ہوتے تھے۔ کیونکہ سمندری راستے سے یہ کراچی کی بندرگاہ سے قریب ترین واقع ہے

قلعہ تاروت زمانوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہا ہے، اس کی کئی بار اصلاح و مرمت بھی ہوئی ہے اور موجود سعودی دور میں آخری بار اس کی پر وزارت آثار قدیمہ نے سنہء 1984 میں کچھ کام کروایا تھا۔ آج کے عہد میں جب سعودی عرب جب سیاحت کو فروغ دے رہا ہے، یہ ثقافتی خزانوں کی سرزمین کا خزانہ ہے۔ یہ قدیم ادوار کے آثار قدیمہ کا مرکز ہے۔ قلعہ تاروت سے دریافت ہونے والے تاریخی نوادر الدمام عجائب گھر اور دارلحکومت الریاض قومی عجائب گھر کی زینت ہیں۔

قلعہ تاروت سے خالص سونے کے نوادرات بھی ملے ہیں،اسکے علاوہ کثیر تعداد میں مورتیاں بھی نکلی ہیں۔ ان میں سب سے اہم “الخادم العابد” یعنی ‘وفادار غلام’ نامی مجسمہ ہے۔ یہ سومری تمدن کے منفرد مجسموں جیسا ہے۔ یہ 94 سینٹی میٹر لمبا ہے- یہاں سے ہزاروں سال پرانے روایتی ہتھیار، تانبے اور مٹی کے برتن اور گھروں میں استعمال کی دیگر اشیا بھی دریافت ہوئی ہیں۔ قدیم بستیوں کا ملبہ بھی ملا ہے۔ یہاں دریافت ہونے والی قدیم ترین بستی کی تاریخ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق قریب 5 ہزار قبل مسیح پرانی ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں پر پانچ ہزار قبل مسیح پہلی انسانی آبادی قائم ہوئی تھی۔ گویا اس کی یادیں پتھر کے دور سے آج تک کی پانچ مختلف تہذیبوں کے ساتھ منسلک ہیں۔

اس کی تاریخ یہاں قدیم انسانوں اور عظیم الشان تمدنوں کے قصے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ یہاں قدیم ترین تاریخی قصبہ ہے، جہاں دو سو سالہ ، اور چار سو سالہ پرانے محل نما مکانات آج بھی موجود ہیں، یہاں قریب ایک مقامی سعودی نوجوان نے اپنا ذاتی عجائب گھر بھی بنایا ہوا ہے، یہاں وہ کچھ قدیم چیزیں فروخت بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ مقامی صنعت کاروں کے ہاتھ سے بنائے ہوئے برتن اور بہت ساری اشیاء بھی موجود تھیں، صرف تین دہائیوں پہلے تک یہاں پر “العودۃ چشمہ” بھی موجود تھا، جہاں مردوں اور عورتوں کے لئے حمام موجود تھے، بلکہ جانوروں کے نہلانے کے لئے بھی انتظام تھا، اب اس جگہ کے قریب “مسجد الکاظم” موجود ہے۔

اس کے علاوہ یہاں ایک معروف اور قدیم قلعہ تاروت کا قہوہ خانہ بھی موجود ہے ۔ جزیرہ تاروت میں کئی اور تاریخی عمارتیں، پرانی تہذیبوں کی باقیات، قدیم ترین قصبے کا مرکز، یہاں کی عمارتوں کا طرز تعمیر منفرد ہے۔ یہاں کی کچھ عمارتوں میں قدیم چٹانیں اور سریے استعمال کیے گئے ہیں۔ عوامی ہوٹل، پرانے میوزیم اور کئی دوسرے مقامات مشرقی سعودی عرب کے اطراف کے کئی مقامات سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہوسکتے ہیں، مگر قلعہ تاروت کی فقط یہی داستان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : یہ تمام تصاویر شریف اللہ، اور میں نے اپنے موبائل سے لی ہیں، جس میں قلعے کی تصاویر ، قریبی علاقے کے قدیم مکانات، محلات، قلعے کے چشمے اور قہوہ خانے،اور عجائب گھر کی تصویریں شامل ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply