بلوچستان کب تک روتا رہے گا؟۔۔ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

کیا بلوچستان میں ایک مبینہ ڈکیتی کے دوران قتل ہو جانے والی خاتون اور ان کی چھوٹی سی معصوم زخمی بچی برمش کے لیے مداوا بس اسی قدر ہے کہ اس واقعہ کو سانحہ کہہ دیا جائے ؟؟؟ ایسا کرنے سے وہ خاتون دوبارہ زندہ ہو جائیں گی ؟ ایک معصوم بچی کو اس کی ماں واپس مل جائے گی ؟ ان کے گھر کی خوشیاں اور سکون لوٹ آئے گا ؟ یا پھر “سانحہ”اور “شہید” کے پیچھے مقصد بس یہ ہے کہ ذمہ داران کو سزا سے بچا لیا جائے یا یہ کہ ارباب بست و کشاد کے سکون و آرام میں مظلوموں کے نالے خلل نہ ڈال سکیں ؟

ریاست کے  پاس بے پناہ اختیارات ہوتے ہیں ، اس کی طاقت انتہا درجہ کی ہو تی ہے لیکن اس سب کے ساتھ ایک شرط بھی جڑی ہوتی ہے۔ وہ اپنی جغرافیائی حدود میں بسنے والوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت صرف ایک معیار کو مد نظر رکھے گی ۔۔۔ وہ سب اس کے شہری ہیں، ایک جیسے شہری۔ اس میں امیر غریب، عورت مرد، اقلیت اکثریت، محب وطن یا غیر محب وطن جیسے کوئی عوامل اپنے شہریوں سے اس کے عمرانی معاہدے پر اثر انداز نہیں ہوں گے۔

بلوچستان ہو، فاٹا یا پنجاب و سندھ ۔۔۔۔ ریاست کو اپنا بنیادی فریضہ یکساں طور نبھانا ہو گا۔ بصورتِ دیگر، پاکستان جیسی متنوع النسل و عقائد ریاست کا نظم اور جغرافیہ دونوں خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ عدل انصاف اور سماجی استحصال کا خاتمہ ہمارے لیے کوئی پسند و ناپسند کا معاملہ نہیں، یہ ہماری نیشنل سکیورٹی کے اساسی ایشوز ہیں۔ اس کی عدم موجودگی میں ملکی دفاع کی دیگر سب تیاریاں ناکافی ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ ذمہ داری نہ تو پرائیویٹ مسلح جتھوں کے سپرد کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان علاقوں پر غیر نمائندہ قیادت مسلط کرنا کوئی سود مند حل ہے۔ ریاست اور ریاست مخالف مسلح جدوجہد کرنے والوں میں فرق ہونا چاہیے۔ یہ دونوں ایک سے ہتھکنڈے استعمال نہیں کر سکتے۔ اگر کریں گے تو ریاست نقصان میں جائے گی کیونکہ اس کی طاقت زیادہ ہے اور منطقی طور پر اس کے کسی بھی جارحانہ ایکشن سے نقصان بھی زیادہ ہو گا۔ نتیجتاً مخالف پارٹی کی تمامتر خونریزی کے باوجود مظلومیت بھی اسی کے حصہ میں آئے گی۔

یہ سب ہم نے مشرقی پاکستان میں بھی دیکھا۔ غیر سرکاری مسلح جتھوں سے نقصان میں اضافہ ہی ہوا، فائدہ نہیں۔ بلکہ وہ بیچارے تو آج بھی وہاں   اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ہم نے مصنوعی سیاسی قیادت کا انجام بھی دیکھا جب گورنر مشرقی پاکستان حالات کو تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جھٹ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں جا پناہ گزین ہوئے۔

آج بلوچستان کی حکومت بشمول وزیر اعلیٰ  اسلام آباد میں اپنے حقوق کے لیے ڈیرے لگائے ہوئے ہے۔ اگر کل کو حالات خراب ہو جائیں اور یہ کہہ دیں کہ مرکز ہماری بات نہیں مان رہا اور یہ سب اپنا پنڈ بچا کر ایک طرف ہو جائیں تو آپ کے پاس کون ہے جس سے آپ بلوچستان میں بات کریں گے ؟

ریاست کے لیے ضروری ہے کہ اپنی طاقت سے ہی نہیں، اپنے فرائض میں بھی پوری طرح بروئے کار آئے۔ اس کے سامنے نقیب اللہ محسود، سانحہ ساہیوال، برمش بیٹی جیسے کیس ادھار ہیں۔ انصاف کا راستہ ہی اصل نیشنل سکیورٹی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معروف تجزیہ کار برائن کلوہلے نے کہا تھا ہر ریاست کو اس ریفرنڈم کے لیے تیار رہنا چاہیے جس کی نوبت شاید کبھی نہ آئے، لیکن اگر کہیں آ ہی جائے اور اس کے شہریوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ اپنی ریاست سے مطمئن ہیں تو تمام   جغرافیائی اکائیوں سے کم از کم 51 فیصد عوام کا جواب ہاں میں ہو !

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply