اِک بھرم جو ٹوٹ گیا۔۔۔فراست محمود

عمران خان سے مجھے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اختلاف ہیں مگر ایک نقطہ جو کبھی کبھی خان کی طرفداری پہ مجبور کرتا ہے، وہ یہ  ہے کہ خان صاحب کی نیت۔۔۔۔مگر صرف اچھی نیت سے جیت تو نہیں مل سکتی نا۔
عمران خان پرانے سیاسی مداریوں کی قید میں ایسا قیدی ہے جو اپنی مرضی سے کروٹ بدلنے سے بھی عاری نظر آتا ہے۔خان بیچارہ مات کھاتا نظر آ رہا ہے اس بوسیدہ نظام سے۔خان لڑنے کا عزم لے کر نکلا تھا مصلحتوں کا شکار ہو گیا ہے۔جیسے عمران خان نے ہم عوام کو ” نئے پاکستان” کی امید دلائی تھی یقین کریں عمران خان کو خود بھی ایسے ہی “لال باغ ” دکھائے گئے تھے۔عمران خان کو چھت پہ چڑھا کر سیڑھی ہٹا لی گئی ہے۔خان کو دایاں دکھا کر بایاں ہاتھ مارا جا رہا ہے۔
خان بے شک اپنا نظریہ نہ بچا سکا۔۔عمران اشرافیہ کے خلاف لڑنے نکلا مگر انہی کی گود میں انہی  کی پھینکی بال سے کھیلنے پہ مجبور ہوا ہے۔
رہی بات قوتِ فیصلہ کی تو وہ ہماری نظر میں خان صاحب میں کبھی تھی ہی نہیں۔

خان صاحب ہیرو تھےکرکٹ میدان کے اور سیاست میں مذاق بن گئے ہیں۔خیر اقتدار کے  نشے کی ہوس ہی ایسی ہے جو اچھے خاصوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔اور خان صاحب کو بھی اس کشش نے ایسا کھینچا ہے کہ دامن نہ بچا پائے ہیں اپنا۔
خان صاحب سے اپنا اختلاف تو شروع سے ہی تھا مگر اک امید کے سہارے ہم بھی کچھ دن خان صاحب کے نام لیوا بن گئے مگر جلد ہی ہمیں اپنی امید دم توڑتی محسوس ہوئی جب خان صاحب نے ” الیکٹیبلز” کو اپنی مجبوری قرار دیا۔
اپنے دماغ نے بھی اسی دن قبول کر لیا کہ ابھی نہیں صاف ہو گا یہ گند ستر سال کا۔بلکہ صاف کرنے والا گندہ ہو گا خود۔

عمران خان نے بھی اقتدار اسی روائتی اور بیہودہ طریقے سے حاصل کیا جو روایت تھی ہماری پرانی۔اور خان صاحب بضد تھے اس بات کے کہ قیادت ٹھیک ہو تو نیچے ٹیم خود بخود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔مگر صاحب بھول گئے شاید کہ جب دس کے دس کھلاڑی ہی کم ظرفی پہ اتر آئیں تو اکیلا کپتان جتنی مرضی آل راؤنڈر کارکردگی پیش کر لے جیت سے کوسوں دور  رہے گا ۔

خان صاحب متکبر ہوں گے مگر شریف برادران جتنے کبھی نہیں۔خان صاحب نواز شریف سے تیز کرکٹر ہوں گے مگر تیز سیاستدان نہیں۔نواز شریف صاحب نے سیاست میں نصف ففٹی سے زیادہ عرصہ گزار دیا اور وہ بھی مسند اقتدار پہ بیٹھ کر۔ اس لئے اس میدان میں وہ عمران خان سے شکست نہیں کھا سکتے تھے۔
حسب معمول صاحب مسند ایک بار پھر استعمال ہو گئے ہیں مگر ہم مکھن سے بال کی طرح نکالنے والی مثال کا سہارا لیں گے نا کہ لفظ ” ٹشو” کا استعمال کریں گے کیونکہ یہ  لفظ  زیادہ   تضحیک کرے گا  صاحب مسند کی۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اصل طاقت کا محور ہے کون؟؟
عدلیہ ، پارلیمنٹ خلائی مخلوق یا ادارے کیونکہ وقت پڑنے پہ سارے ہی اپنے حصے کی شمع جلا لیتے ہیں اور پھونکوں سے بجھا بھی دیتے ہیں خود ہی۔مگر معاشرے میں کیے گئے اندھیروں کو کوئی بھی اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ اس سارے سسٹم کا اصل محافظ ہے کون جو تبدیل نہیں ہونے دے رہا اس نظام کو؟
اس نظام کو بوسیدہ کہنے والے ،تبدیلی کا پرچار کرنے والے کیوں تبدیل نہیں کرنا چاہتے یہ خود ساختہ نظام۔اس نظام کے رکھوالے کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی جاگیرداری ختم ہو ۔ ٹاٹوں پہ بیٹھنے والے ان مسندوں پہ ان کے مقابل بیٹھ پائیں۔بستی ملوک کا گلزار ہمیشہ گلزار ہی رہے گا یا کبھی راولپنڈی کا سعد بن سکے گا؟؟۔۔۔میرے خیال میں نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

خان صاحب سول سیاستدان بن کر سیاست کرتے تو یقیناً شریف برادران کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لئے ڈوب چکا تھا مگر نواز شریف  یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوا   کہ عمران خان کا نعرہ ” کھوکھلا” ہے حالانکہ ” تبدیلی صرف عمران کو نہیں پورے پاکستان کو چاہیے تھی۔
عمران خان اس سسٹم میں رہ کر اس سسٹم کو تبدیل کرنے چلا تھا مگر سمجھ نہ سکا راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ،اب کچھ ناکردہ گناہ بھی صاحب مسند کی جھولی میں ڈال دئیے جائیں گے جن کا خیال بھی دل میں نہ گزرا ہو گا اورسب اپنا اپنا دامن بچا لیں گے ۔
یقین کریں نواز شریف اگر لندن نہ جاتے تو آئندہ نسلوں کے لئے واقعی نیلسن منڈیلا ہوتے اور کتابوں میں تذکرہ ہوتا ان کا مگر۔یہ سب فی الحال ایسا ہی چلتا رہے گا جب تک ایسا ” عمران خان ” نہیں آ جاتا ” الیکٹیبلز جس کی مجبوری نہ ہوں۔
اک بھرم جو ٹوٹ گیا
اک امید جو بکھر گئی
اک دیا تھا جو بجھ گیا
اک سفر جو تمام ہوا
اور زندگی کے کسی موڑ پہ شاید خان صاحب کے دل میں خیال گزرے
” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت”.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply