ایک لیڈر کا کام مشکل حالات میں اپنی قوم کا حوصلہ اور ہمت بڑھانا ہوتا ہے۔ انہیں سمجھانا ہوتا ہے کہ دشمن بیشک لاکھوں کی تعداد میں ہے اور تم سینکڑوں میں ہو،تم پھر بھی اس دشمن پر نہ صرف قابو پا لو گے بلکہ ان کو قیدی بنا کر مال غنیمت بھی تمہارے حصے میں آئے گا۔ یہ بہادری کی نشانی ہوتی ہے۔ ناکہ انہیں کہا جائے دشمن ایک لشکرِ جرار لے کر آ رہا ہے تمہارا بچنا ناممکن ہے۔ تم گھروں کو بھاگ جاؤ۔ لیکن آپ اپنے دماغ سے سوچیے کہ کیا ان سپاہیوں کے گھروں میں محکوم ہونے پر وہ اس فاتح لشکرِ جرار کے غیض و غضب سے بچ سکیں گے۔ کیونکہ فاتح کے کچھ اصول نہیں ہوتے۔
تو کیا آپ اُس کا مذاق اڑائیں گے یا اس کا اپنی عوام کا حوصلہ بلند کرنے پر داد دیں گے۔
پاکستان بھارت کی جنگ لگ جائے بھارت جو کہ بہت سے معاملات میں ہم سے بہتر ہے۔ تو کیا آپ کہیں گے اب وزیراعظم کو چاہیے لوگوں کو بتائے ہم جنگ ہار جائیں گے ہم نہیں جیت سکتے۔ کیونکہ ہم ہر لحاظ میں اُن سے کمزور ہیں۔ یا آپ چاہیں گے کہ وزیراعظم اپنے لوگوں کو اعتماد میں لے ان کا حوصلہ بڑھائے ان سے کہے وہ تو معمولی سا دشمن ہے۔ ہم اس دشمن کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہم ان کو ایسی شکست دیں گے یہ یاد رکھیں گے۔
میرے دوست کی بہن اور بہنوئی جو کہ جب سے کورونا شروع ہوا ہے۔ مکمل قرنطینہ میں رہ رہے تھے۔ کسی سے کسی بھی طرح کا ملنا جلنا نہیں تھا۔ نہ گھر سے نکلتے تھے اور نہ کسی کا گھر میں آنا تھا۔ اتنی زیادہ احتیاطی تدابیر کے بعد بھی انہیں کورونا ہو گیا۔ اب سارے گھر والے انہیں تسلیاں اور دلاسے دے رہے ہیں۔ کہ آپ جلد صحتیاب ہو جائیں گے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اگر وہی سارے لوگ ان دونوں کو ڈرانا شروع کر دیں تو کیا وہ درست بات ہے یہ ان کی ڈھارس بندھانی درست طریقہ ہے۔
قوم کی ڈھارس باندھنے کی کوشش میں عمران خان نے کچھ دن قبل پریس کانفرنس میں کورونا کے حوالہ سے لوگوں سے یہی بات کی تھی “کہ اگر آپ کو کورونا ہوتا ہے تو ایک فلُو کی طرح ہو گا آپ کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائیں گے”۔ تاکہ لوگ ناامید نہ ہوں۔
لیکن اس بات پر ان پر پھبتیاں کسی گئیں ۔ طنز کے نشتر برسائے گئے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ عمران خان ٹی وی پر آئے اور کہہ دے کہ جس کو بھی کورونا ہو گیا اس نے تو لازمی مرنا ہے۔ بلکہ کورونا سے متاثر شخص کے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے ایک ہزار تک لوگوں نے مر جانا ہے۔ تو شاید لوگ خوش ہوں گے۔
حکومت نے لاک ڈاون کر کے بھی دیکھ لیا لیکن کورونا کم ہونے کی بجائے بڑھا ہی ہے۔ کیونکہ اب دنیا نے یہ بات سمجھ لی اور اچھی طرح جان لی ہے کہ کورونا ایک اٹل سچائی ہے اور کورونا کی تباہ کاریاں ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی لیے اب پوری دنیا ہی آہستہ آہستہ لاک ڈاون کو ختم کرکے سمارٹ طریقے اپنا کر نارمل زندگی کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔
ایسے میں پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک جہاں لوگوں کو کھانے کے لالے پڑیں ہوں وہاں تو لاک ڈاون کا کھلنا ویسے بھی ضروری تھا۔ کیونکہ ہمارے حکومت میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ لوگوں کو گھر میں بیٹھا کر کھلا سکے۔
اب اس موقع پر جب ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے تو وزیراعظم پاکستان کو مایوسی پھیلانے کی باتیں کرنی چاہئے یا آگے بڑھ کر لوگوں کا حوصلہ بڑھانا تھا۔ فیصلہ آپ خود کیجئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں