خواتین مظلوم نہیں

خواتین کا عالمی دن

Advertisements
julia rana solicitors london

آج یعنی 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔۔۔یہ عالمی دن منانے کی وجہ یہ ہے کہ 1956ء میں سیاہ فام مزدوروں پر پابندی کے خلاف نیو یارک میں بیس ہزار سے زائد خواتین نےمظاہرے کیے اس پر 8 مارچ کو اقوام متحدہ نے بھی عورتوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا!
تقریبا دس سال سے یہ دن پاکستان میں پورے اہتمام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔
اس دن زیادہ تر خواتین پر ہونے والے مظالم اور مردوں کے ظلم کے بارے میں لکھا اور ڈاکومنٹریز دکھائی جاتی ہیں ۔باقی ممالک کا پتہ نہیں لیکن پاکستان میں یہی سب ہوتا ہے .
ایک اور کام یہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے،فادرڈے،مدرزڈے کی طرح کچھ لوگ خواتین کے عالمی دن کی بھی شدیدمخالفت کرتے ہیں اوراسے غیر ضروری تصور کرتے ہیں ۔
کچھ مرد و زن آج کے دن کوخواتین میں موجود کوتاہیوں کی نشاندہی کا دن مانتے ہیں اور ان کے خلاف لکھنا،پڑھنااوربولنا پسند کرتے ہیں۔
کچھ کا کہنا ہے ہر دن خواتین کا ہے۔۔۔اور یہ میں بھی مانتی ہوں کہ ہر دن خواتین کا ہے!
دراصل عورت آج تک اپنے آپ سے آشنا ہی نہیں ہو پائی۔۔ جس طرف لگا دیا لگ گئی۔ پسند کی شادی سے منع کیا ہو گئی۔۔ مردوں کو مجازی خدا سمجھنے کو کہا سمجھ لیا۔۔
کسی نے کہا تم یہ اتنی گری پڑی کیوں ہو؟مردوں سے پیچھے کیوں ہو؟تمہارا مقام ان سے پیچھے نہیں ان کے برابر ہےعورت اٹھی اور مرد کے برابر کھڑی ہو گئی۔یہاں تک کوئی مسئلہ نہ تھا مسئلہ تب ہوا جب وہ اپنے آپ کو مرد کے ساتھ دیکھ کر بھی مطمئن نہیں ہوئی۔ اسے مزید آگے جانا ہے۔ اسے لگتا ہے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا۔اسے لگتا ہے وہ مظلوم ہے۔۔
اگر وہ ایک گھریلو خاتون ہے تو بھی وہ مظلوم ہے اور اگر باہر نکل کر کام کرتی ہے تو بھی اس پر ظلم ہو رہا ہے۔۔عورت نے خود کو مظلوم تصورکر لیا ہےاسے لگتاہےہربیٹی کوغیرت کے نام پر آگ لگائی جارہی ہےہر بیوی صرف بچے پیدا کر رہی ہے،ہر ماں صرف بچوں کے مظالم برداشت کر رہی ہے۔۔اسلئے ہر عورت آج کے دن کو مردوں کے خلاف لکھ کر،بول کرخودکےساتھ ہونے والے مظالم پر رونے کا دن مناتی ہےکیونکہ وہ خود کو پہچانتی ہی نہیں۔۔
اکثر لکھاجاتاہےفلاں خاتون یا مرد حقوق نسواں پر لکھتے ہیں ۔۔یہ حقوق نسواں کیا ہیں؟خواتین کےحقوق ؟
کبھی پڑھ کر دیکھیے کوئی ایسی تحریر،حقوق کے نام پر خواتین کومردحضرات سے اور مرد حضرات کو خواتین سے خائف کیا جارہا ہے۔
خواتین کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر مرد حضرات کے خلاف کچھ کرو گی تو ہی اپنا حق حاصل کر سکو گی ورنہ نہیں ۔مرد اس دنیا کی ظالم ترین مخلوق ہے۔۔
اب اس قسم کی باتیں سُن سُن کر خواتین کو مردوں میں صرف برائیاں ہی نظر آئیں گی اور جب وہ ان کے خلاف کھڑی ہوں گی تو مرد کِس بل بوتے پر خواتین کے ساتھ مثبت رویہ اختیار کر پائیں گے ؟
عورت اس دنیا میں رنگ بھرنے کا سبب بن سکتی ہے لیکن رنگ سے بھنگ بن کر رہ گئی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ آج کے دن یا سال کے کسی بھی دن عورت خود کو مظلوم نہ سمجھے۔۔وہ ہر کسی کو یہ نہ بتاۓ کہ میں نے کتنا ظلم برداشت کیا ہے بلکہ یہ بتاۓ کہ میں نے اپنے گھر کے لئے،اس ملک کے لئے اپنے لئے کتنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔
کیا تعریف کی حقدار صرف ایک مظلوم عورت ہے ؟ کیا پاکستان میں موجود تمام خواتین تشدد کا شکار ہوتیں ہیں ؟ کیا ہر بہن پسند کی شادی پر غیرت کے نام پر مر رہی ہے ؟ کیا ہر شوہر اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے ؟ کیا ہر گھریلو عورت مظلوم ہے؟یا ہر ورکنگ وومن مجبور ہے ؟
ہرگز نہیں ۔۔۔۔آج بھی ہمارے معاشرے میں محبت کی شادیاں ہوتیں ہیں ۔آج بھی ایک شادی شدہ خاتون اپنے گھر میں مطمئن رہتی ہے،آج بھی ایک ورکنگ وومن کسی مجبوری میں نہیں بلکہ اپنی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے،اپنے خواب پورے کرنے کے لئے نوکری کرتی ہے۔ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد میں خواتین تعلیم حاصل کرتیں ہیں۔۔ڈاکٹر ، انجینئر ،پائلٹ اوراستاد بنتی ہیں۔
حالات اس قدر ناسازگار ہرگز نہیں جتنے ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت محفوظ ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں عورت کو بہن کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور جسے بھائی کہہ دیا جائے وہ خود کو بھائی ثابت کرتا ہے۔
تو پھر محض چند لوگوں اور قِصوں کے باعث کیوں ہم خواتین آج کے دن اپنے اوپر ہونے والے مظالم یاد کریں ؟
کیوں نا آج اپنا ہنر یاد کریں ؟ کیوں نا آج ایک بیٹی یہ یاد کرے کہ والد اور بڑے بھائی جنہوں نے یونیورسٹی جانے کی اجازت نہ دی تھی،انھیں اس نے کیسے لاڈ پیار سے مانا لیا تھا۔۔ کیوں نا آج ایک بہن یہ یاد کرے کہ پسند کی شادی کرنے پر اسکے بھائی نے اسکےساتھ مل کر والد کو راضی کیا تھا۔ کیوں نا ایک بیوی یاد کرے کہ اس کے لکھنے کے شوق کی خاطر اس کا کتنا ساتھ دیا تھا۔۔ کیوں نا ایک ورکنگ وومن یہ یاد کرے کہ اس نے کام کے ساتھ ساتھ گھر کو کتنا اچھا سنبھالا تھا۔۔
جناب یہ حقیقت ہے ہمارے معاشرے میں ایسے باپ ، بھائی ، شوہر اور بیٹے بھی موجود ہیں اور ایسی خواتین بھی جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی اور اپنے خواب دونوں کو خوبصورتی سے نبھایا۔
میں یہ نہیں کہتی کہ ہمارے معاشرے میں ظلم نہیں ہورہا،زیادتی نہیں ہورہی،تشددنہیں ہورہا۔۔ لیکن ہمارے معاشرے میں صرف یہی سب نہیں ہو رہا بہت کچھ مثبت بھی ہو رہا ہے جس پر لکھنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کا دن خواتین کا دن ہے ہر دن خواتین کا دن ہے میرے اور آپ کے بغیر یہ دنیا مکمل نہیں اسلئے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں خود کو celebrate کریں.
آخر میں عارفہ شہزاد کی ایک نظم سب خواتین کے نام اور ان مردوں کے نام بھی جو عورت کو اس معاشرے میں اس کا مقام دیتے ہیں۔
عورت ہوں نا۔۔
مجھے چاہیے ہیں
تمہاری آنکھیں
زمیں کی کوکھ پھوٹتی
سر خوشی کے رنگ دیکھنے کے لئے۔۔
اور تمہاری سماعت
بارش میں
قطرہ نیساں کی آہٹ سننے کےلئے۔۔
اور تمھارے ہونٹ
سورج کی تمازت کا لمس
جذب کرنے کے لئے۔۔
اور تمھارے ہاتھ
ہوا کی ہتھیلی پر
حیرت کی داستاں لکھنے کے لئے ۔۔
اور مجھے چاہیے ہے
تمہاری ساری محبت
تم سے محبت کرنے کے لئے۔۔۔
عورت اور مرد لازم وملزوم ہیں جناب ۔۔انھیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا نہ کیجئے بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلنے دیجئے!!!

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply