• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سعودی ریاست کی بنیاد اور جنگجوؤں کا گواہ “المصمک قلعہ”/منصور ندیم

سعودی ریاست کی بنیاد اور جنگجوؤں کا گواہ “المصمک قلعہ”/منصور ندیم

آج دنیا بھر میں جی ٹوینٹی ممالک کی نمائندگی کرنے والا خلیج کا سب سے بڑا ملک سعودی عرب اپنے تاریخی پس منظر میں کچھ جنگجو جانبازوں کے عزم کی داستان کے مرہون منت ہے۔ آل سعود خاندان جب اپنی پہلی ریاست کو کھو چکا تھا، پہلی سعودی ریاست کی ابتداء اٹھارویں صدی عیسوی سے ہوئی تھی۔ اس کا نقطہ آغاز درعیہ تھا جو نجد میں واقع ہے اور سعودی عرب کے موجودہ دارالحکومت ریاض سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، الدرعیہ میں آل سعود سے یہ قلعہ سنہء 1891 میں عثمانیوں سے مذاکرات کی ناکامی اور اپنے حریف ابن رشید کے ہاتھوں بریدہ کی جنگ میں انہیں ریاض سے جلاوطن ہونا پڑا تھا۔ گیارہ برس کی جلاوطنی کے بعد یہاں درعیہ میں موجود المصمک قلعہ سعودی ریاست کو دوبارہ عبدالعزیز ابن عبد الرحمن نے یکم ستمبر سنہء 1901 کو کویت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور 15 جنوری سنہء 1902 کو یہ جلاوطنی کا عرصہ ختم کردیا، جب عبدالعزیز ابن عبد الرحمن بن سعود نے کویت سے براستہ ربع الخالی کے صحرا سے اپنے چند جانثاروں کی فوج کے ساتھ یہاں المصمک کے قلعے پر یلغار کی تھی۔

عبدالعزیز ابن عبد الرحمن نے ربع الخالی کے خطرناک صحرا کے سفر میں ماہ رمضان کا مہینہ بھی شامل تھا، اور آخری رمضان کو یہاں پہنچ کر عید کے دن ابن رشید کے گورنر سے یہاں کی حکمرانی واپس لی تھی۔ یہ محدود افراد کا کارواں عبدالعزیز ابن عبد الرحمن کی معیت میں بہت کم مشکیزوں، مکھن اور کھجوروں کے ساتھ پورے سفر میں گزارا کرتا رہا تھا۔ یہ صحرا کا سفر بہت محتاط طریقے سے طے کیا گیا تھا، نومبر تک یہ مختصر جانثاروں کا کارواں ریاض سے قریب 250 کلومیٹر آج کے جدید شہر الحارث کے پاس ڈیرے ڈال چکی تھی، یہیں سے قافلے کے پاس کویت سے ایک بری خبر پہنچی کہ ترک ریاض میں ابن راشد کی مدد کے لئے آرہے ہیں۔ اس وقت کویت میں سمجھ لیا گیا کہ عبدالعزیز ابن عبد الرحمن ہار مان کر واپسی کرلے گا۔ لیکن اس خیال کے برعکس عبدالعزیز ابن عبد الرحمن نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا کہ
” جو بھی کویت واپس جانا چاہتا ہے، میری طرف سے اجازت ہے اور اسے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اگر اکیلا بھی رہا تو میں ریاض کے دروازے پر موت کو گلے لگانے کو ترجیح دونگا۔ اگر کوئی میرے ساتھ مرنے کے لئے تیار ہے تو انہیں خوش آمدید ۔”

اس قافلے میں سے کسی نے بھی جانے سے انکار کردیا، سوائے قاصد کوئی واپس نہ لوٹا۔ مگر قاصد عبدالعزیز ابن عبد الرحمن کا یہ پیغام اپنے والد کے لئے لے گیا کہ ” خدا نے چاہا تو اب ہم ریاض میں دوبارہ ملیں گے”. اس کے بعد یہ قافلہ پھر الدرعیہ کی جانب پیش قدمی کرنے لگا، جب ریاض سے مسافت صرف سات دن کی رہ گئی تب عبدالعزیز ابن عبد الرحمن نے رمضان کی آخری تاریک رات میں شہر میں داخلے کی منصوبہ بندی کی، جب شہر کے محافظ عید الفطر کی تیاریوں میں مصروف تھے، اس وقت یہ کارواں شہر میں داخل ہوا المصمک قلعے کی دیواروں سے چڑھ کر انہوں نے مرکزی دروازے کے سامنے ایک گھر میں چھپ گئے، اسی گھر کی دیواروں کے پیچھے ابن رشید کا گورنر عجلان موجود تھا۔ رات بھر عجلان اور اس کے مقربین نے جشن منایا اور اگلی صبح تاخیر سے جب اس کے محافظ اٹھے، اسی وقت عبدالعزیز اور اس کے ساتھیوں نے پیش قدمی شروع کی۔

اس جنگ کی کئی کہانیاں معروف ہیں، مگر اس معرکے کی معروف داستان کے مطابق جب گورنر کے محافظ قلعے میں حفاظتی ترتیب کے لئے آئے تب عبدالعزیز نے ہی عجلان کو زمین پر گرا دیا تھا، جس وقت عبدالعزیز ابن عبد الرحمن گورنر عجلان کے ساتھ لڑ رہے تھے، اس وقت ایک موقعے پر عبدالعزیز کے پیچھے ایک محافظ حملہ آور ہوا اسی لمحے عبدالعزیز کے کزن عبداللہ ابن جلوی ابن ترکی نے ان کی جان بچائی اور اس محافظ کو مارا جو عقب سے عبدالعزیز پر وار کرنے کی والا تھا۔ اسی اثناء میں قلعے کی فصیلوں کے محافظوں کو اندازہ ہوگیا اور انہوں نے فائرنگ شروع کردی، اسی وقت عبدالعزیز کے اور کزن فہد بن جلوی بن ترکی نے عجلان پر ایک تیر پھینکا، جو قلعے کے ایک دروازے میں جالگا اور آج بھی اس تیر کا نشان وہاں موجود ہے۔ یہ تیر شہزادہ فہد بن جلوی نے عجلان پر قاتلانہ حملے کے لیے چلایا تھا جس سے عجلان بچ گیا تھا، اس موقعے پر عجلان ایک اور چھوٹے دروازے سے قلعے میں داخل ہونے میں کامیاب تو ہوگیا، لیکن عبدالعزیز کے کزن عبداللہ ابن جلوی ابن ترکی اس کے پیچھے اسی لمحے اسی دروازے سے داخل ہوا اور اسے مارڈالا، عجلان کا مرنا تھا کہ المصمک قلعے کے محافظین نے ہتھیار ڈال دئیے، اسی دن قریبہ شہر کے لوگوں نے عبدالعزیز ابن عبد الرحمن کے ہاتھوں پر بیعت کرلی، 5 شوال سنہ ھجری 1319 کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے المصمک کو قابض طاقت سے آزاد کرالیا تھا۔ المصمک قلعے میں شاہ عبدالعزیز، ان کے جانباز ساتھیوں اور ابن رشید کے گورنر عجلان کے درمیان جہاں مشہور جھڑپ ہوئی تھی جس میں عجلان اور اس کے ساتھی مارے گئے تھے۔ اس لڑائی کے نشان آج تک وہیں محفوظ ہیں۔ فتح کے بعد قلعے کو گولہ بارود اور اسلحہ کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا گیا پھر اسے اس دور کے تاریخی واقعات کے شاہد کے طور پر محفوظ کردیا گیا۔

آج قلعہ المصمک سعودی عرب کی متحدہ ریاست کے قیام کی علامت اور موجودہ سعودی عرب کے قیام کی جدو جہد کا عینی شاہد ہے۔المصمک قلعہ سعودی ریاست کے آغاز کی علامت مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی مملکت قائم ہوئی اور متعدد ریاستیں ایک پرچم تلے آئیں، یہ قلعہ امام عبداللہ بن فیصل بن ترکی آل سعود کے عہد میں تعمیر ہوا تھا۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1865 میں ہوا تھا، اور سعودی عرب کی ریاستی تاریخ میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ قلعہ المصمک کو یہ نام اس لئے ملا کیونکہ اس قلعے کی دیواریں موٹی اور مضبوط ہیں اسی وجہ سے اسے المسمک یا المصمک قلعہ کہا جاتا ہے۔ یہ قدیم شہر کے قلب میں واقع ہے اور اب تقریبا اس کی تعمیر کو ڈیڑھ سو برس ہوچکے ہیں۔ ریاض سے اس کا راستہ قلعہ السویلم اور الثمیری سڑکوں سے ہوکر جاتا ہے۔ اس کے اطراف مٹی کی دیوار بنی ہوئی ہے جو چھ میٹر اونچی ہے، اس کے پانچ دروازے ہیں۔ اس قلعے کی تعمیر میں مٹی استعمال ہوئی ہے۔ اس کی چھتیں کیکر کے درخت کی لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ اس کے علاؤہ تعمیر میں کھجور کی چھال بھی استعمال کی گئی ہے۔ آج اگر آپ دیکھیں تو المصمک قلعہ جدید عمارتوں اور آس پاس کے پکے راستوں کے درمیان قدیم طرز کی پرشوکت عمارت کے طور پر الگ نظر آتا ہے- المصمک قلعے کا صدر دروازہ جو لکڑی کا ہے۔ منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ یہ 3.6 میٹر اونچا، 65.2 میٹر چوڑا ہے۔ اس کی موٹائی 10 سینٹی میٹر ہے۔ قلعے میں چار مینارے ہیں جو مخروطی ہیں ہر ایک 14 میٹر اونچا ہے البتہ المربع ٹاور 18 میٹر اونچا ہےْ صحن میں ایک زینہ ہے جس سے قلعے کی پہلی منزل اور چھت تک جایا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں دارلحکومت ریاض میونسپلٹی نے گزشتہ صدی کے دوران اس کی مکمل ترمیم کا جامع پلان تیار کیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب شاہ سلمان بن عبدالعزیز ریاض کے گورنر ہوتے تھے۔ انہوں نے اسے متحدہ مملکت کے قیام کی تاریخ کا نمائندہ میوزیم بنوا دیا تھا، دن کے اوقات میں یہ میوزیم کھلتا ہے، سعودی عرب کے محکمہ سیاحت نے اس عجائب گھر کو جدید خطوط پر استوار کیا ہے- اس کے وسطی ہال اور حصوں کی تعداد بڑھائی گئی- یہاں اب مختلف مواقع پر خصوصا یون الوطنی ہر پروگرامز ہوتے ہیں یہاں ریاض کے اس قلعے کو فتح کرنے کا قصہ تصاویر اور نقشوں کی مدد سے اجاگر کیا گیا ہے، قلعے کی فتح میں شامل ان تریسٹھ ہیروز کی تصاویر البم میں نظر آئیں گی، جن میں دس افراد عبدالعزیز ابن عبد الرحمن کے اپنے قریبی خاندان کے دس افراد شامل رھے، آج کا سعودی عرب ان تریسٹھ ہیروز کی بہادری کا شاخسانہ ہے جنہوں نے سعودی عرب کی ریاست کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

نوٹ :
1- معروف برطانوی ماہر تعمیرات Christopher Alexander نے اپنی کتاب میں اس قلعے کا ذکر کیا ہے،
کہ یہ قلعہ تعمیراتی طرز پر ایک ’لطف دینے والی گتھی‘ ہے-

Advertisements
julia rana solicitors london

2- ایک اور معروف مصنف و مورخ Robert Lecey کی کتاب The Kingdom، Arabia & the house of Saud میں آپ کو اس معرکے کی مکمل تفصیلات مل جائیں گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply