فاتح بن کے لوٹوں گا۔۔حسان عالمگیر عباسی

سید مودودی رح کو جب پھانسی دی جانے والی تھی سے پچھلی شب ایسے سو رہے تھے جیسے کل ان کی نئی زندگی کا آغاز ہونے جا رہا ہے گویا:

ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

ہماری اکثریت کی معاشرتی تربیت ایسے خطوط پہ ہو رہی ہے جیسے کل قیامت ہے تیاری پکڑو، لاہور کی گاڑی نکلنے کو ہے، کل شام غزوہ ہند کا ایک گروہ نکل جائے گا لہذا بہتر یہی ہے کہ سابقون و الاولون میں نام درج کرایا جائے، عدم اعتماد ناکام ہو کر رہے گی ان شاءاللہ، عدم اعتماد کامیاب ہو کر رہے گی ماشاءاللہ، ملک کو اس وقت عظیم قائد کی ضرورت ہے، بھارت کو سبق سیکھانا ہو گا، اگر یہ ہوا، مگر ایسا ہونا چاہیے تھا، چونکہ، چنانچہ الغم بلغم۔

اس وقت پوری قوم بشمول مذہبی، سیاسی، نظریاتی، غیر نظریاتی، آزاد خیال، حقیقت پسند، غیر حقیقت پسند، فعال، غیر فعال، ترقی پسند، انیس سو انچاس میں رہنے والے، دو ہزار پچاس میں رہنے والے، فرقوں، بزرگوں، جوانوں، لڑکوں، لڑکیوں، انکلز، آنٹیوں، طلباء سب کو ٹھنڈا پینے اور اس حوصلے کی ضرورت ہے جو خان صاحب پچھلے پانچ سال سے دے رہے ہیں: سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے!

رات کو ایسے سونے کی پریکٹس کریں کہ ابھی کئی دہائیاں مزید سانسیں برقرار رہیں گی اور یہ جوش و جذبہ پیدا کریں کہ سب خیر ہے اور خدا وارث ہے اور وہی رب العالمین ہے گویا:

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

جب یہ رویہ عادت بن جائے گا تو مسائل کا حل ڈھونڈنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ کوشش رہے کہ وہی کریں جو کر سکتے ہیں کیونکہ ہر انسان ہر کام کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا۔ اپنی ذمہ داری کا احساس یہ نہیں ہے کہ فاتح بن کے لوٹوں گا، کشتیاں جلا دوں گا بلکہ ذمہ داری تھوڑے اور ستھرے اور مستقل مزاجی کو کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لا یکلف اللّہ نفسا الا وسعھا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply