اولڈ ایج ہوم اور ہمارا معاشرہ۔۔عاصمہ حسن

ایک زمانہ تھا جب اولڈ ایج ہومز کے بارے میں کوئی جانتا تک نہ تھا ـ، صرف اِکا دُکا لوگوں سے سنتے تھے کہ مغرب کے لوگ اپنے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ آتے ہیں، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے والدین بچوں کی ذمہ داری نہیں اٹھاتے اور بچے وقت سے پہلے ہی خود مختار ہو جاتے ہیں ،لہذا سال میں ایک دن جس کو ماں اور باپ کے دِنوں سے منسوب کیا جاتا ہے اس دن ان سے ملنے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ پورا دن گزارتے ہیں ـ۔

وہ بھی کیا خوبصورت زمانہ تھا جب بوڑھے والدین کو بوجھ نہیں بلکہ گھر کی رونق اور ان کے دم سے برکت کا تصور عام تھا، ـ جب والدین غصے میں بولتے تھے تو بچے سر جھکا کر سنتے تھے اور آگے بولنے کا تصور بھی نہیں تھا، ـ ہر فیصلے میں نہ صرف ان کی تجویز کو اہمیت دی جاتی تھی بلکہ ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ان کی رائے بھی لی جاتی تھی۔

پھر وقت بدلنے لگا ‘ ہماری سوچ’ بدل گئی ‘ روایات’ تہذیب دم توڑتی گئیں، کیونکہ ہم نے مغرب کی تہذیب کو اپنانا شروع کر دیا حتٰی کہ ہم اتنے بے حس ہو گئے کہ کئی کئی بچے مل کر بھی بوڑھے ماں باپ کو سنبھال نہیں پاتے ،ان والدین کو جنہوں نے اپنی ساری زندگی ان کے نام کر دی ہوتی ہے، اپنی جوانی کو ان بچوں کی پرورش میں پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ ـ

اولاد اپنے ان والدین کو دو وقت کی روٹی’ پیار’ عزت و احترام اور چھت مہیا نہیں کر پاتی جنہوں نے اپنی نیندیں ‘ اپنے خواب اور اپنی خواہشات اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے قربان کر دیئے ہوتے ہیں ـ۔

اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ نہ صرف تعریف کے قابل ہے بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی تھا ـ ،تاکہ کوئی بھی چاہے ماں ہو یا باپ در بدر نہ ہو سکے ،ـ جب زندگی کی صعوبتیں سہہ کر بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچیں تو کم از کم اپنے آخری دن سکون سے ایک چھت کے نیچے گزار سکیں۔ ـ

ہمارا مذہب اسلام ہمیں اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی کی ترغیب دیتا ہے ـ ہمیں اخلاقیات ‘ والدین کے حقوق کے متعلق تعلیمات دی جاتی ہیں ـ ہماری آخری اور مقدس کتاب قرآن پاک میں واضح لفظوں میں والدین کی خدمت اور نیک سلوک کا ذکر کیا گیا ہے۔ ـ

قرآن پاک میں والدین کو اُف کہنے اور جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے، ـ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ” اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ـ ،اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا’ نہ انھیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضح کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہےـ۔”

اولڈ ایج ہوم کا رجحان اب زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں ـ روزگار کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اولاد کو گاؤں’ شہر یا ملک سے باہر جانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ والدین کو ساتھ لے کر جانا ممکن نہیں ہوتا ـ ایسی صورتحال میں والدین اکیلے رہ جاتے ہیں ـ ایسے میں بھی دو صورتحال سامنے آتی ہیں ایک یہ کہ جو لوگ مالی لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور ان کے اپنے گھر ہوتے ہیں وہ اپنے گھروں میں رہ جاتے ہیں اور بچے باہر سے خرچہ بھیجتے ہیں اور گزر بسر بہتر ہو جاتی ہے لیکن اس میں بھی اکیلے والدین کا رہنا مشکل ہوتا ہے اور اگر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک رہ جائے تب بھی ان کو  اس عمر میں تنہائی کا  عذاب جھیلنا پڑتا ہے ظاہر ہے عمر کے اس حصے میں اکیلے گھر میں رہنا اور اپنے وسائل کا انتظام کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ـ

ابھی کچھ دن پہلے میری نظروں سے ایک وڈیو گزری جس میں ایک ادھیڑ عمر کی خاتون کے پاس گاڑی تو تھی لیکن وہ لوگوں سے مدد کے لئے کہہ رہی تھی اور پیسے مانگنے پر مجبور تھی کسی راہ چلتے نے وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنا تو مناسب سمجھا لیکن اس کے دکھ اور تکلیف کو جاننے کی کوشش نہیں کی ،کہ مانگنے کا عمل جو دنیا کا سب سے مشکل اور حقیر کام ہے وہ خاتون اس عمر میں کرنے پر مجبور کیوں اور کیسے ہوئی یہ ایک سوالیہ نشان ہے ـ۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی مالی طور پر مستحکم نہیں ہے تو وہ والدین کو اولڈ ایج ہوم میں ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو کر نوکری اور بہتر مستقبل کے لئے بیرون ملک چلا جاتا ہے ان کو ماہانا پیسے بھجوانے کا وعدہ کر کے اپنی مشکل آسان کر دیتا ہے اب والدین سالہا سال اپنی اولاد کا چہرہ دیکھنے کو تڑپتے رہتے ہیں ـ۔

پھر دیکھا گیا ہے کہ آج کل کی لڑکیاں ساس سسر کا وجود گھر میں برداشت نہیں کرتیں یا ان کی خدمت کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتیں ایسے حالات میں بھی گھر کے سکون کی خاطر والدین کو اولڈ ایج ہومز میں جانا پڑتا ہے تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو اور بہو اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے ـ ایک اور وجہ جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ شہروں میں گھر چھوٹے ہوتے ہیں اور کرایہ زیادہ لہٰذا والدین کو ساتھ رکھنا اولاد کو مشکل لگتا ہے ـ۔

سب سے مشکل اور تکلیف دہ عمل یہ ہے کہ آجکل اولڈ ایج ہومز کو صرف کاروبار کی حیثیت کے طور پر لیا جاتا ہے جہاں ان کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام نہیں ہوتا اور بوڑھے والدین جو عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں ان کو جذباتی طور پر زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے وہ نظر انداز ہوتے ہیں ظاہر ہے اپنی اولاد جیسا پیار تو کوئی بھی نہیں دے سکتا ـ۔

عام طور پر یہ ادارے فلاحی ہوتے ہیں ان کو حکومت کی سپورٹ حاصل نہیں ہوتی لہذا وہ جگہ رہنے کے قابل نہیں ہوتی اور سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ـ۔
ہمیں ان اداروں کی مدد کرنا چاہیے اگر کوئی خالی گھر ہو جس کے مکین ملک سے باہر رہتے ہوں وہ اپنے گھر کو اولڈ ایج ہوم میں بدل سکتے ہیں اسی طرح جو ماں یا باپ میں سے اکیلا رہ گیا ہو یا جن کی اولاد نہ ہو اور وہ اکیلے رہنے پر مجبور ہوں ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ایسے لوگوں کو رکھ سکتے ہیں جو بے سہارا ہوں اس طرح دونوں فریقین کو سہارا میسر آجائے گا اور ان کو جینے کی وجہ مل جائے گی۔

آئے روز سننے میں آتا ہے کہ فلاں گھر میں اکیلے رہنے کہ وجہ سے بوڑھے ماں یا باپ کی موت ہو گئی اور محلے یا سوسائٹی میں کسی کو علم نہ ہو سکا ـ یہ ایک دل دہلا دینے والا عمل ہے ـ وہ والدین جنہوں نے اپنے آرام کی پرواہ کئے بغیر ہماری پرورش کی اور ایک آواز پر لبیک کہا ان کو ایسی بے بسی کی زندگی گزارنی پڑے ـ یہ ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے اردگرد خیال رکھیں کہ کوئی ایسے اکیلے اور ضرورت مند نہ ہو جن کو ہماری مدد کی ضرورت ہو ـ۔

اولاد کو بھی چاہیے کہ اپنے بوڑھے والدین کا خیال رکھیں کیونکہ انھی کے سبب وہ اس دنیا میں آئے اور کامیابیاں سمیٹی ہیں ـ قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ  نے اپنا شکر ادا کرنے کی تلقین کی وہاں والدین کی شکر گزاری کا بھی حکم دیا ہے ـ سورۃ لقمان میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ ” میرا شکریہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو ‘ میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ ـ”

Advertisements
julia rana solicitors

مخیٗر حضرات کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اولڈ ایج ہوم والے اداروں کی سرپرستی کریں اور حسبِ حیثیت معاونت کرتے رہیں ـ اس طرح وہ یہاں آباد ضعیف والدین کی دعائیں حاصل کریں گے کیونکہ انھیں بہتر سہولیات میسر ہو سکیں گی ـ اس کارِ خیر میں شمولیت صدقہ جاریہ کا بھی سبب بنے گا ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اولڈ ایج ہوم اور ہمارا معاشرہ۔۔عاصمہ حسن

  1. Wonderful article… amazing …this is very sensitive and touchy topic … unfortunately its happening in our society, kids are not willing to take care of their parents …
    Allah Almighty give strength to all parents and make our kids respectful for their elders especially parents …

Leave a Reply