لیلۃ القدر ، خیروبرکت کی رات۔۔۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

رمضان المبارک بڑی برکتوں اورفضیلتوں والامہینہ ہے۔ اس کے دن بھی مبارک اوراس کی راتوں کی فضیلتوں کاکیاکہنا۔ اس ماہ مقدس کی پاک راتوں میں ایک ایسی رات ہے جولیلۃ ا لقدرکہلاتی ہے۔ یہ بڑی خیروبرکت اورمنزلت والی رات ہے۔ لیلۃ القدرماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ایک رات ہے۔ اس مبارک رات کولیلۃ القدرکہنے کی پانچ وجوہات ہیں قدرکامعنی عظمت ہے۔چونکہ یہ رات بھی عظمت والی ہے۔ اس لئے اسے لیلۃ القدرکہتے ہیں۔ قدرکا معنی عزت ہے یعنی جس کی کوئی قدروقیمت نہ ہووہ اس رات کی برکت سے صاحب قدرہوجاتاہے۔قدرکامعنی حکم ہے چونکہ اس رات اشیاء کے متعلق ان کی حقیقتوں کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔قدرکے معنی تنگی ہے چونکہ اس رات زمین اپنی وسعت کے باوجودفرشتوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہے یااس میں قدروالی کتاب نازل ہوئی یاکہ اس میں قدروالے فرشتے نازل ہوتے ہیں یوں توماہ رمضان کاسارامہینہ مبارک ہے مگرلیلۃ القدرسارے رمضان پاک کی سردارہے اس کی شان تقدیس بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پوری سورۃ القدرنازل فرمائی۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے “بے شک ہم نے اس (قرآن)کو شب قدرمیں اتاراہے اورآپ کیاسمجھے ہیں (کہ) شب قدر کیاہے؟شب قدر(فضیلت وبرکت اوراجرو ثواب میں)ہزارمہینوں سے بہترہے اس (رات)میں فرشتے اورروح الامین(جبرائیل ؑ)اپنے رب کے حکم سے (خیروبرکت کے)ہرامرکے ساتھ اترتے ہیں یہ(رات)طلوع فجرتک (سراسر)سلامتی ہے”۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پاس بنی اسرائیل کے ایک شخص کاتذکرہ ہواجس نے ایک ہزارماہ اللہ پاک کی راہ میں جہادکیاصحابہ کرام علہیم الرضوان کواس سے بہت تعجب ہوااورتمناکرنے لگے کاش ان کے لئے بھی ایساممکن ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے عرض کی اے میرے رب تونے میری امت کوکم عمر عطافرمائی ہے اب ان کے اعمال بھی کم ہوں گے تواللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوشب قدرعطافرمائی اورارشادفرمایا”اے محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم!شب قدرہزار مہینوں سے بہترہے جومیں نے تجھے اورتیری امت کوہرسال عطافرمائی ہے یہ رات ماہ رمضان میں تمہارے لئے اورقیامت تک آنے والے تمہارے امتیوں کے لئے ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے۔سورۃ القدرکے شان نزول کے بارے میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک معتبرراوی سے یہ روایت اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے جب پہلی امتوں کی عمروں پرتوجہ کی تویہ بات معلوم ہوئی کہ اگلے لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوخیال گزراکہ میری امت کی عمریں انکے مقابلہ میں کم ہیں تونیکیاں بھی کم رہیں گی اورپھردرجات اورثواب میں بھی کم ہونگے تواللہ تعالیٰ نے یہ رات آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کوعنایت فرمائی اوراسکا ثواب ایک ہزارمہینے کی عبادت سے زیادہ دینے کاوعدہ فرمایا”۔(موطاامام مالک)یہ بہت ہی قدرومنزلت اورخیروبرکت کی حامل رات ہے قرآن کریم نے ہزارراتوں سے افضل قرار دیاہے۔لیلۃ القدرامت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے لئے ایک خاص انعام ہے جواس امت سے پہلے کسی امت کوعطانہیں کی گئی۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دوجہاں سرورکون مکان صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا “بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے لیلۃالقدرمیری امت ہی کوعطاکی اورتم سے پہلے لوگوں کو اس سے سرفرازنہیں کیا”۔شب قدر کے بارے میں پیران پیر حضرت سیدشیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدالبشرحضرت آدم علیہ السلام ہیں اورسیدالعرب حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہیں اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام اہل فارس کے سردارتھے اسی طرح سیّدالروم حضرت صہیب الرومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیّدالحبش حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح تمام بستیوں میں سروری مکہ مکرمہ کووادیوں میں سب سے برتری وادی بیت المقدس کوحاصل ہے دنوں میں جمعۃ المبارک سیّدالایام ہے راتوں میں شب قدرکوسروری حاصل ہے کتابوں میں قرآن کریم کواورقرآن پاک کی سورتوں میں سورہ البقرہ کواورسورۃ البقرہ میں آیت الکرسی کوسب آیات میں بزرگی اور سرداری حاصل ہے پتھروں میں سے حجراسودتمام پتھروں میں بزرگ ہے اورماہ زمزم کاکنواں ہرکنویں سے افضل ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کاعصاہر عصا سے برترتھااورجس مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس علیہ السلام رہے تھے وہ تمام مچھلیوں میں افضل تھی حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی تمام اونٹنیوں میں افضل تھی اوراسی طرح براق ہرگھوڑے سے افضل تھاحضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری تمام انگشتریوں سے برتراورافضل تھی اور ماہ رمضان تمام مہینوں کاسردارااوران سے بزرگ وافضل ہے اس سے معلوم ہواکہ لیلۃ القدر،سیداللیالی یعنی تمام راتوں کی سرداررات ہے۔
حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوایمان کی وجہ سے اورثواب کے لئے شب قدرمیں قیام کرے اسکے گذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔درج بالاحدیث پاک میں لیلۃ القدرمیں عبادت کی تلقین کی گئی ہے۔اوراس بات کی طرف بھی متوجہ کیاگیاہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصودہودکھاوااورریاکاری نہ ہواورآئندہ گناہ نہ کرنے کاعہدکرے اس شان سے عبادت کرنے والے کے لئے یہ رات سراپامغفرت بن کرآتی ہے لیکن وہ شخص محروم رہ جاتاہے جواس رات کوپائے اورعبادت نہ کرسکے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک کی آمدپر حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا۔”یہ ماہ جوتم پرآیاہے اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیاگویاوہ ساری خیرسے محروم رہااوراس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتاہے جوواقعتاََمحروم ہو”(ابن ماجہ)۔یہ رات کتنی عظمت والی ہے۔واقعی وہ انسان کتنابدبخت ہے جواتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوادے۔ہم معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر گزار لیتے ہیں تواَسّی80سال کی عبادت سے افضل بابرکت رات کے لئے جاگناکوئی زیادہ مشکل کام تونہیں “حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے لیلۃ القدرکی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا”جب لیلۃ القدرہوتی ہے تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں اورہر اس کھڑے بیٹھے بندے پرجواللہ تعالیٰ کاذکرکرتاہے،سلام بھیجتے ہیں۔ جب ان کی عیدکادن ہوتاہے یعنی عیدالفطرکادن تواللہ تعالیٰ ان بندوں سے اپنے فرشتوں پرفخرکرتے ہوئے فرماتاہے اے فرشتو!اُس مزدورکی اُجرت کیاہونی چاہیے جواپناکام پوراکردے؟ َتوفرشتے عرض کرتے ہیں اے رب کریم!اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پوراپورااجردیاجائے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میرے بندوں اوربندیوں نے اپنے اوپرلازم عمل (فریضہ) کو پوراکرلیااوراب وہ مجھے پکارتے ہوئے اوردعاکرتے ہوئے عیدگاہ کی طرف نکلے ہیں میرے عزت وجلال کرم اورعلومرتبت کی قسم! میں انکی دعاقبول کرونگااس وقت تک اللہ پاک فرماتاہے واپس ہوجاؤمیں نے تمہیں بخش دیاہے تمہارے گناہوں کونیکیوں میں تبدیل کردیاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ لوگ اپنے گھروں کولوٹتے ہیں توانکے گناہ بخشے جاچکے ہیں۔(بیہقی)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاہے کہ”جب لیلۃ القدرہوتی ہے تواللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کوحکم دیتاہے اوروہ اللہ کے حکم سے فرشتوں کی جماعت کے ساتھ زمین کی طرف اترتے ہیں انکے پاس سبزپرچم ہوتاہے جسے وہ کعبے کی چھت پرنصب کردیتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سوپرَہیں جن سے وہ دوپرصرف اسی رات پھیلاتے ہیں جومشرق ومغرب سے آگے تک تجاوزکرجاتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام امین فرشتوں کوحکم دیتے ہیں کہ امت مسلمہ میں پھیل جاؤتوفرشتے ہرنمازی،عبادت گزاراورذکرالٰہی کرنے والے کوسلام کرتے ہیں خواہ وہ بیٹھاہویا کھڑاہوان سے مصافحہ کرتے ہیں اوردعاکے وقت ان کے ساتھ آمین کہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے پھرجب صبح ہوجاتی ہے توجبرائیل امین فرشتوں کوآوازدے کرکہتے ہیں بس اب چلوفرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے جبرائیل علیہ السلام!اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے مومنوں کی حاجتوں کے بارے میں کیافیصلہ فرمایا ہے؟جبرائیل امین جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نظررحمت سے سرفرازفرمایاہے اورانہیں معاف کردیاہے اوربخش دیا ہے سوائے چارشخصوں کے صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیایارسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم وہ چاراشخاص کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاشراب کاعادی،ماں باپ کانافرمان رشتے توڑنے والا اور مشاحن ہم نے عرض کیایارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم مشاحن کون ہے توآپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاکہ جومصارم ہویعنی دل میں بغض رکھتاہے۔(غنیۃ الطالبین)
اس رات کوباقی راتوں پرچندوجہ سے بزرگی حاصل ہے اول تویہ کہ اس رات میں شام سے لیکرصبح تک تجلی الٰہی بندگان خداکیطرف متوجہ ہوتی رہتی ہے۔دوسرے یہ کہ اس رات میں روح الامین علیہ السلام اور ملائکہ آسمان سے صالحین اورعبادت کرنے والوں کی ملاقات کے لئے زمین پراترتے ہیں اورانکے آنے اورحاضرہونے کی وجہ سے عبادت میں وہ لذت اورکیفیت پیداہوتی ہے جودوسری راتوں کی عبادت میں پیدانہیں ہوتی تیسری یہ کہ قرآن مجیداسی رات میں نازل ہوا،چوتھے یہ کہ فرشتوں کی پیدائش اسی رات میں ہوئی پانچویں یہ کہ اسی رات بہشت میں باغات لگائے گئے۔یہ ایک ایسی مبارک رات ہے کہ جس میں دریائے شورکاکڑواپانی بھی میٹھاہوجاتاہے۔حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک غلام نے جوکئی سال ملاح رہاہے آپؓ کوبتایاکہ میں نے دریامیں ایک عجیب بات دیکھی ہے جس سے عقل حیران ہے وہ عجیب بات یہ ہے کہ سال میں ایک ایسی رات آتی ہے جس میں دریائے شورکاکڑواپانی میٹھاہوجاتاہے۔حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُسے فرمایاکہ جسوقت وہ رات آئے تومجھے اطلاع دیناتاکہ میں معلوم کروں وہ کونسی رات ہے جب ستائیسویں رات رمضان پاک کی آئی توغلام نے اپنے آقاکوبتلایاکہ یہ وہ رات ہے جس میں دریائے شورکاپانی میٹھاہوجاتاہے۔(بحوالہ تفسیرعزیزی)۔
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ابتدائے رمضان کے پہلے عشرے کااعتکاف کیاپھردوسرے عشرے کااعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیااس اعتکاف کے دوران سرمبارک خیمہ سے نکال کرفرمایامیں نے پہلے عشرہ کااعتکاف کیاتومیں لیلۃ القدرکو تلاش کرتارہاپھرمیں نے دوسرے عشرے کا اعتکاف کیاتومجھ سے ایک فرشتہ نے آکرکہاکہ لیلۃ القدرتورمضان کے آخری عشرہ میں ہے اب جومیری سنت کے اتباع اعتکاف کاارادہ رکھتاہے اسکوچاہیے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے مجھے یہ رات خواب میں دکھائی گئی ہے لیکن بعدمیں اسکاخیال میرے ذہن سے محوکردیاگیااورصبح کومیں نے دیکھاکہ میں گیلی کیچڑ جیسی زمین میں محوسجدہ ہوں لہذا!تم اس (لیلۃ القدر) کوآخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلا ش کروراوی کہتے ہیں کہ اس وقت بارش ہوئی تھی اورمسجدنبوی کی کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چھت کے ٹپکنے کی وجہ سے فرش پرکیچڑہوئی تھی اورمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی پیشانی مبارک پرپانی اورمٹی کااثردیکھاتھااوریہ اکیسویں تاریخ کی صبح تھی۔حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چنداصحاب نے خواب میں شب قدرکورمضان کی آخری سات راتوں کودیکھااس سلسلہ میں نبی اکرمصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایامیں تمہارے خوابوں میں مماثلت دیکھتاہوں تم میں سے شب قدرکوتلاش کرنے والاماہ رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔ (مسلم شریف)حضرت زربن جیش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جوشخص سال بھرمیں راتوں کوقیام کریگاوہ لیلۃ القدرکوپالے گاحضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایااللہ تعالیٰ ابن مسعودپررحم فرمائیان کارادہ یہ تھاکہ کہیں لوگ ایک رات پرتکیہ کرکے نہ بیٹھ جائیں ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہے اوریہ رات ستائیسویں رمضان کی ہے پھرانہوں نے بغیراِن شاء اللہ کہے قسم کھاکرکہاکہ لیلۃ القدررمضان کی ستائیسویں شب ہی ہے۔میں نے کہااے ابوالمنذر!تم یہ بات اتنے یقین سے کس وجہ سے کہہ رہے ہو؟انہوں نے کہاکہ اس دلیل یااس نشانی پرجورسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ہمیں بتائی ہے اوروہ یہ ہے کہ اس رات کے بعدجب سورج طلوع ہوتاہے تواس میں شعائیں نہیں ہوتیں“۔(مسلم شریف)
حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاشب قدرستائیسویں رات کی ہوتی ہے۔(ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہواوہاں دیگرصحابہ کرام علہیم الرضوان بھی تشریف فرماتھے حضرت عمرؓ نے ان سے سوال کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے اس فرمان “شب قدر “کورمضان کے آخری عشر ے کی طاق راتوں میں تلاش کرواس کے بارے میں تم لوگوں کاکیاخیال ہے وہ کونسی رات ہوسکتی ہے؟کسی نے کہااکیسویں،کسی نے کہاپچیسویں،کسی نے کہاستائیسویں،میں خاموش بیٹھاتھاحضرت عمرؓ نے فرمایابھائی تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاجناب آپ ہی نے توفرمایاتھاکہ جب یہ بولیں توتم نہ بولناآپ ؓ نے فرمایابھائی تمہیں تواسی لئے بلوایاگیاہے کہ تم بھی کچھ بولومیں نے عرض کیاکہ میں نے سناہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات چیزوں کاذکرفرمایاہے چنانچہ سات آسمان پیدا فرمائے سات زمینیں پیدافرمائیں انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی انسان کی غذازمین سے سات چیزیں پیدافرمائیں (اس لئے میری سمجھ میں تویہ آتاہے کہ شب قدرستائیسویں شب ہوگی)حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاجوچیزیں تم نے ذکرکی ہیں انکاتوعلم ہمیں بھی ہے یہ بتلاؤجوتم کہہ رہے ہوکہ انسان کی غذازمین سے سات چیزیں پیدافرمائیں وہ کیاہیں؟میں نے عرض کیاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادمیں موجودہیں (ترجمہ) ہم نے عجیب طورپرزمین کوپھاڑاپھرہم نے اس میں غلہ اورانگوراورترکاری اورزیتون اورکھجوراورگنجان باغ اورمیوے اورچارہ پیداکیا میں نے عرض کیاکہ حد ائق سے مرادکھجوروں درختوں اورمیوؤں کے گنجان باغ ہیں اوراَبّ سے مرادزمین سے نکلنے والاچارہ ہے جوجانور کھاتے ہیں انسان نہیں۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایاکہ تم سے وہ بات نہ ہوسکی جواس بچہ نے کہہ دی جس کے سرکے بال بھی ابھی مکمل نہیں ہوئے بخدامیرابھی یہی خیال ہے جوکہہ رہاہے۔(شعب الایمان جلد۳صفحہ ۰۳۳)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایاشب قدرکورمضان کے آخر ی عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری شریف)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔یارسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہمیں شبِ قدرکے بارے میں بتائیں توآپصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایایہ رات ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے۔اس رات کوآخری عشرہ میں تلاش کرو۔بے شک یہ طاق راتوں یعنی اکیسویں، تئیسویں،پچیسویں،ستائیسویں،انتیسویں میں سے کوئی ایک یارمضان کی آخری رات ہوتی ہے جس شخص نے لیلۃ القدرمیں حالت ایمان اورطلب ثواب کی نیت سے قیام کیاپھراسے ساری رات کی توفیق دی گئی تواسکے اگلے اورپچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔(احمد،طبرانی)حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے شب قدرکے بارے میں ارشادفرمایا کہ یہ ایک خوشگوارومعتدل کھلی کھلی(گھٹن سے محفوظ)رات ہے نہ سردنہ گرم اوراسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعدصبح کوآفتاب شعاعوں کی تیزی کے بغیرطلوع ہوتاہے اوراس طرح ہوتاہے جیساکہ چودھویں کاچاندشیطان کے لئے روانہیں کہ اس دن کے سورج کے ساتھ نکلے۔(مسنداحمدبن حنبل)شب قدرتلاش کرنے کاخاص طریقہ اعتکاف ہے یعنی رمضان کے آخری عشرہ میں کسی مسجدمیں اللہ کویادکرنے کے لئے بیٹھ جائیں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے (ایک دفعہ)آقاصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے عرض کیایارسول اللہصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اگرمیں لیلۃ القدرکو پالوں تواس میں کیادعاکروں؟آپصلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ارشادفرمایا یوں کہواَللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ’‘تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ توبہت معاف فرمانے والاہے اوردرگزرکرنے کوپسندکرتاہے پس تومجھ کومعاف فرما۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے پاس حاضرہوااورعرض کیا۔اے اللہ کے نبی میں ایک ضعیف اوربیمارآدمی ہوں،میرے لئے (طویل)قیام بہت مشکل ہے لہذامیرے لیے کسی ایسی رات میں قیام کاحکم فرمائیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ مجھے لیلۃ القدرعطافرما دے آپ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا(پھرتو)تیرے لئے (رمضان کے آخری عشرہ کی)ساتویں رات جاگناضروری ہے۔(مسنداحمدبن حنبل)
اللہ تعالیٰ ہماری جانی،مالی تمام عبادات کوبارگاہ لم یزل میں قبول فرمائے۔بروزقیامت امام الانبیاء کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply