یہ ہمارا عمومی رویہ ہے جب بھی کوئی بات کرتے ہیں تو اپنی بات کو باوزن کرنے کے لئے مختلف حوالوں کا سہارا لیتے ہیں۔ تاریخ میں بہت سے انسانوں نے اپنی علمی استعداد کے مطابق پُرخلوص محنت کی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم فقط ان کی کہی ہوئی باتوں کو چباتے رہیں اور سماج کو علمی جمود کی دلدل میں دھکیل دیں ۔انکی باتیں ،ان کا علم، ان کے استدلال۔۔ فی زمانہ موجود سماجی حالات کے مطابق بہت بہترین رہے ہونگے مگر ہمارے زمانے و سماج کے لیے وہ تمام تفکرات اجنبی محسوس ہوتے ہیں ہم انکی محنت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کی پوجا شروع کر دیں۔
میرا خیال ہے کہ ہم ان کا سہارا لیے بغیر اگر اپنی بات کریں گے تو بات زیادہ پُرمغز ہو سکتی ہے۔
اکابرین نے جو کہنا ،کرنا تھا ،کر دیا۔۔ اب ہمارا دور ہے ہم جیتے ہیں سانس لیتے ہیں بول سکتے ہیں اور ہم سوچ بھی سکتے ہیں بعینہ اسی طرح جس طرح تاریخ میں ہر سوچنے والا انسان سوچ سکتا تھا اور اگر فی زمانہ علمی دسترس کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ان تمام تاریخی کرداروں کے مقابل زیادہ رسائی رکھتے ہیں، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ قبروں میں سوئے لوگوں کی فکر کا پرچار کرنے کی بجائے آج کے دور کے انسان کی بات کی جائے و،ہ کیسے سوچتا ہے ،کیسے غور کرتا ہے ۔۔اسی کے مطابق اس سے بات کی جائے، اجنبی فکری احساس اسے مزید فکری کسمپرسی میں تو دھکیل سکتا ہے،مگر اسے جِلا نہیں بخشتا۔
برمحل چوٹ ایک عام پتھر کو حسن عطا کرتی ہے اور اسے شاہکار بنا دیتی ہے وگرنہ پتھر کا قدرتی حسن بھی زائل ہو جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں