دو” ک” ،دو” ج”/یوحنا جان

ایک بات کی سمجھ آج تک نہیں آ سکی اور وہ ہمارے تعلیمی ادارے اور ان کے  باطنی اور ظاہری کردار کا سرِعام تضاد ہے ۔ جب سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے سر اٹھانے کا کام شروع کیا ہے بجائے علمی اور تعلیمی ترقی ہو، صرف بیڑا غرق ہونے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آیا ۔ جب کسی قوم اور ریاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے تو پھر بےغیرتی، ہڈحرامی اور لاتعلقی جیسے سنگین جرائم جنم لے کر اس قوم کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ جو مسلسل تنزلی, بربادی , بے ایمانی اور نت نئے بہانے بنانے میں ماہر نسل تیار کر کے نکا لتے ہیں ۔ ان حالات کی روشنی میں مقابلہ بازی اور ٹھگ بازی کا بازار گرم ہو کر ایک دوسرے کو لائق اور نالائق کہنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتے ۔

لائق بچے صرف اپنی انا, ہٹ دھرمی اور دوسروں کو حقیر دیکھنے کے سِوا اور کچھ بھی نہیں کرتے۔ بجائے دوسروں کو ساتھ لے کر چلیں صرف اپنے آپ کو ماہر اور دوسروں کے حقوق کو سلب کرتے نظر آتے ہیں ۔ نالائق تو پہلے ہی نالائق ہوتے ہیں ان کو یہ لقب دے  کر مزید خراب کر دیا جاتا ہے مطلب دونوں طرح سے نتیجہ ناکامی ہی نکلتا ہے ۔ مطلب تو صاف ہے جب اس جیسی نسل کو مزید آبیاری کرنے والے ملیں، ان کا حوصلہ اور ہمت دگنی ہو جاتی ہے۔ تب وہ عملی زندگی میں قدم رکھ کر بجائے حقوق و فرائض کا خیال رکھیں اور خوف ِ خدا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اتحاد اور یگانگت کا بول بالا  کریں وہ مکمل طور پر ناکام ہو جاتے ہیں ، تو پھر جاہل اور مذہبی رسومات کے پجاری ظاہری ملیں گے ،علامہ اقبال نے   نظم ” ساقی نامہ ” میں ان کی  کیا خوب عکاسی کی ہے :
تمدن, تصوف , شریعت , کلام
بتان ِ  عجم کے پجاری تمام
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش

ان باتوں کا بغور مطالعہ کریں تو پھر یہی لوگ رشوت کو “چائے پانی” اور ” ذاتی حصّہ” تصور کرکے بے ضمیری کو پروان چڑھاتے ملتے ہیں ۔ سرکاری دفاتر کی بات ہوئی یا اعلیٰ عدالتوں کی پڑھے لکھے جاہل ہی ملیں گے ۔ اس موضوع کے انتخاب پر میں نے کئی دفعہ سوچا کہ کس طرح بیان کروں؟
ان چیزوں اور ثبوتوں کو کیسے پیش کروں؟ جس طرف بھی نگاہ کی تو صرف ایک ہی بات منظرِ عام پر ملتی ہے اور وہ قانون ، شریعت اور علم کا مذاق۔
جب اس طرح کے جاہل اور پڑھے لکھے پیدا ہوں تو مزید جاہلیت کو تقویت ملتی ہے ۔ تو اسی اعتبار سے غلام عباس افسانہ “جواری” میں لکھتے ہیں:
” نکو نے یکبارگی زور کا قہقہہ لگایا۔ اتنے زور کا کہ وہ ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا کیوں دیکھا اس نے کہا ! نہ چالان , نہ مقدمہ ، نہ قید ، نہ جرمانہ میں کہتا تھا اسے مذاق ہی سمجھو۔”

اس افسانے کی روشنی میں ہر بات موجودہ حالات کو صرف مذاق ہی قرار دیتی معلوم ہو رہی ہے۔ چاہے وہ “کلرک” کی کرسی پر بیٹھا ہے یا “جج” کی کرسی پر ۔ وہ اپنی حماقت اور نالائقی کو چھپانے کے لئے ہڈحرامی , چاپلوسی, غلط کو بھی درست اور ہر بات کو مذاق میں لے کر دوسروں کے حقوق اور عزت کا جنازہ نکالنے میں مگن ہیں ۔ جب بنیادی جڑیں قدروقیمت کھو دیں, جیتے جی مار کر بے غیرتی کا لبادہ پہن لیں پھر چلتے پھرتے راکھ کے ڈھیر ہیں۔ اقبال لکھتے ہیں :
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

Advertisements
julia rana solicitors

اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لئے تمدن کے پجاریوں کی دگرگوں کو واضح کرنے کی کوشش کروں تو یہ قوم روایات میں کھو کر بھی بے نصیبی کا عالم اپنے ہم پلّا کر کے عجم کے خیالوں میں مگن ہے ۔ جو اچھلنے ، پھسلنے اور الجھنے میں ماہر ہے ۔ جب ان کی حالت زار اور باطن کے خیالوں کا عکس معلوم کیا تو پتا چلا کہ:
کتے کو ایک “ک” جبکہ کلرک کو دو “ک” لگی ہوئی ہیں ۔ مزید اس بات کی تہہ تک جانے کی کوشش کی تو تحقیق نے پردہ عیاں کر کے رکھ دیا ۔ تحقیق نے ضمیر کو جھنجوڑ تے ہوئے بولا ، لفظ “جاہل” تو تم کئی دفعہ سن چکے ہو اور اس سے وابستہ بھی ہوچکے ہو ۔ اسی تحقیق نے عقل اور علم کو ہمراہ لیتے ہوئے مزید کھوج لگانے کی توفیق دی تو معلوم ہوا کہ لفظ “جاہل” میں تو ایک” ج” ہے مگر “جج ” کو ایک کا اضافہ ہے ۔ تب یہ منطق سمجھ میں آئی کہ پاکستان کو 75 برس بیت جانے کے بعد بھی اسی “زنار پوش” نے پکڑ رکھا ہے ۔ وہی تماشا اور مداری گر کا بازار گرم ہے، یہی کلام خطیب کا دادا ہے ۔ سارا قصور وار یہ کالا لبادہ ہے ۔ ان کی نگاہوں میں الجھا ہوا اندھیرا ہے ۔ یہ وہی دیرینہ بیماری جو ابھی تک لاعلاج ہے ۔ انسانیت کے نام پر بڑا داغ ہے , اسی نے شراب کو پانی میں ثابت کیا ۔ اسی “ج” اور “ک” نے چور کو چور ثابت نہ کر کے ثابت کر دیا کہ ماضی تو جاہلیت کا تھا ہی مگر ہم سے زیادہ نہیں ۔ تب مجھے سمجھ آئی جب 11 اپریل 2014 کو عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے اس معاشرے کے معروف اور مشہور ادارے کا حصہ بنا ۔ یہ قدرت کا فیصلہ تھا کہ اس نے “ج” اور “ک” کی اصلیت دکھانی تھی جو ابھی بھی اس قوم کی رگوں میں چھپی ہوئی ہے جس نے نسل انسانی کی جڑوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ میں نے متعدد دفعہ تھری پیس اور کاٹن کے مہنگے کپڑوں میں اس “ج” اور ” ک ” کو دیکھا جو ایک کپ چائے کے عوض کتاب مقدس پر ہاتھ رکھ کر اپنا ضمیر اور ایمان فخر سے فروخت کرتے ہیں ۔ غلام عباس اپنے افسانوں “بہروپیا ” میں ان کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں :
” بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ  لوگ دھوکہ کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں ۔”
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ :
“کتے” کو ایک “ک ” تو کلرک  میں دو “ک” لگی ہیں جبکہ “جاہل” کو ایک تو ” جج ” کو ایک زیادہ میسر ہے ۔ جس کے کان ہیں وہ سن لیں اور جس کی آنکھیں ہیں وہ دیکھ لیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply