• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • علامہ اقبال کی جناح صاحب پر ایک “ترک شدہ” تنقیدی نظم۔۔۔۔عدیل عزیز

علامہ اقبال کی جناح صاحب پر ایک “ترک شدہ” تنقیدی نظم۔۔۔۔عدیل عزیز

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ جن کا اردو و فارسی کلام آج بھی کروڑوں انسانوں کےقلب و زباں پر رہتا ہے۔ علامہ اقبال شاعر , فلسفی , قانون دان ہونے کے ساتھ ایک فعال سیاستدان بھی تھے اور ملت کی راہنمائی کرنے کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اسی اصول کے تحت جو بات بھی خلاف ملت خیال کرتے اس پر آواز بلند کرتے تو کبھی اپنے اشعار کے ذریعے اس پر جرح کرتے۔
ہر بڑے شاعر کی طرح علامہ اقبال نے بھی اپنے ہر مجموعہ کلام میں منتخب نظمیں و اشعار شامل کیے جبکہ سینکڑوں نظمیں غیر مطبوعہ رہیں۔ ڈاکٹر صابر کلورُوی لکھتے ہیں کہ احباب کی فرمائش بھی اقبال کو بعض اوقات شعر گوئی پر مجبور کردیتی تھی “جیسے ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک دوست کی فرمائش پر نظم لکھی, اور گورنر پنجاب مائیکل اڈوائر کی فرمائش پر بھی “پنجاب کا خواب” کے عنوان سے ایک نظم لکھی” مگر انہیں کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں کیا اور اس جیسی کچھ نظمیں اور اشعار وہ تھے جو علامہ اقبال نے کسی خاص موضوع و شخصیت پر لکھے ضرور مگر معاملے کی حقیقت پتہ لگنے اور دوستوں کے مشوررے پر اپنی زندگی میں ہی ترک کردیے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی پہلی تصنیف اسرار خودی 1916 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں صوفیاء کرام اور حافظ شیرازی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ صوفیا کرام پر جو تنقید کی گئی تھی اس کا جواب خواجہ حسن نظامی نے اپنے رسالہ “ماہنامہ نظام الشیخ” میں صراحت کے ساتھ دیا۔ جس کا جواب علامہ اقبال نے “اخبار وکیل امرتسر” میں دیا۔ اس طرح خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال میں جواب در جواب کا سلسلہ ایک عرصہ تک چلتا رہا۔
جبکہ حافظ شیرازی پر جو تنقید کی گئی تھی اس پر علامہ اقبال کو ہند اور بیرون ہند سے سینکڑوں خطوط مصول ہوئے۔ کیونکہ اسرار خودی میں اقبال نے ایک دو نہیں بلکہ پینتیس عدد اشعار میں حافظ شیرازی پر سخت طنز اور تنقید کی تھی جنہیں بعد میں دوست احباب کے مشورے پر ترک کردیا۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں
ہوشیار از حافظ صہبا گسار
جامش از زہر اجل سرمایہ دار
رہن ساقی خرقہ پرہیزاو
مے علاجِ ہولِ رسرا خیزاو
محفل او در خورِ ابرار نیست
ساغرِ او قابل احرارِ نیست
بے نیاز از محفل حافظ گذر
الحذر از گو سفنداں الحذر

Advertisements
julia rana solicitors

اسی طرح تین فروری 1938 کو مسلم اخبارات (زمیندار, احسان اور انقلاب) نے علامہ اقبال کے مولانا سید حسین احمد مدنی کے خلاف یہ اشعار شائع کیے
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ ممبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بہ مصطفیٰؐ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
ان اشعار میں آزادی برصغیر کے عظیم راہمناء پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس کا جواب جناب احمد سہیل نے سید حسین احمد مدنی کے حق میں طویل فارسی نظم لکھ کر دیا اور اس سے اسلامیانِ ہند میں نہ صرف قلمی بحث چھڑ گئی بلکہ بات تکرار تک بھی آن پہنچی اور مسلمان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایسے موقع پر مولانا عبدالرشید نسیم (علامہ طالوت) آگے بڑھے اور علامہ اقبال اور سید حسین احمد مدنی سے طویل خط و کتابت کےبعد ان کی غلط فہمیاں دور کیں۔
علامہ اقبال نے اختلافات و غلط فہمیاں دور ہونے کے بعد اپنا تردیدی بیان شائع کیا جو “روزنامہ احسان” میں 28 مارچ 1938 کو شائع ہوا۔ مگر بدقسمتی سے ارمغان حجاز علامہ اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی جس میں اس کلام کو باقی رکھا گیا اور اب تک یہ کلام کتاب میں موجود ہے اور وجہ اختلاف بنتا ہے۔
ایسے ہی کچھ طنزیہ اشعار علامہ اقبال نے محمد علی جناح صاحب کے بارے میں بھی کہے تھے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب جناح صاحب “قائد اعظم” کے رتبے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔
۔پھر اقبال جیسی شخصیت نے اگر کسی زمانے میں جناح صاحب جیسے قائد کے بارے میں کچھ لکھا تو یہ دو قد آور شخصیات کا نقطہ نظر کااختلاف تھا۔ اور یہ اختلاف ایک سے زیادہ مواقع پر ہوا، جیسے مسلم لیگ میں دھڑے بندی کے وقت علامہ اقبال نے جناح صاحب کی بجائے ،لیگ کے شفیع گروپ کی حمایت کی۔ اور سب سے بڑھ کر جناح و اقبال دونوں ہی بشر تھے اور پیغمبروں کے سوا کوئی بشر بھی معصوم عن الخطا نہیں۔
چنانچہ 9 نومبر 1921 کو روزنامہ زمیندار میں جناح صاحب کے طرز سیاست پر علامہ اقبال کی طنزیہ نظم “صدائے لیگ” کے عنوان سے شائع ہوئی۔ جو درجہ ذیل اشعار پر مشتمل تھی
صدائے لیگ
لندن کے چرخ نادرہ فن سے پہاڑ پر
اترے مسیح بن کرمحمد علی جناح
نکلے گی تن سے تو کہ رہےگی تباہ ہمیں
اے جان برلب آمدہ اب تیری کیا صلاح
دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے
مجنوں کے واسطے ہے یہی جادہ فلاح
آغا امام اور محمد علی ہے باب
اس دین میں ہے ترک سوادِ حرم مباح
بَشریٰ لکم کہ منتظر مارسیدہ ہست
یعنی حجابِ غیرتِ کبریٰ دریدہ ہست
(روزنامہ زمیندار 9 نومبر 1921)
نظم کی تشریح:
ان اشعار کا معنی و تشریح تو کوئی اقبال شناس ہی بہتر انداز میں کرسکتا ہے مگر میرے ناقص علم کے مطابق اس کی تشریح کچھ یوں بنتی ہے
پہلے شعر میں اقبال نے جناح صاحب کو طنز کرتے ہوئے مسیح (ع) سے تشبیہ دی کے کہ جناح صاحب خود ساختہ مسیح کی مانند لندن سے (بغیر کسی بشارت کے) اچانک ہم پر نازل ہوئے ہیں۔۔
دوسرے شعر میں اقبال کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمیں یعنی ملت کو تباہ کرنے کے واسطے آئے ہو کہ اس وقت کم و پیش تمام مسلمان تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر متحد تھے اور جناح صاحب کا لیگ کو دوبارہ زندہ کرنا اقبال کی نظر میں فتنہ و تقسیم کا موجب تھا۔
تیسرے شعر میں علامہ اقبال نے جناح صاحب کو بھٹکے ہوئے مجنوں سے تشبیہ دی ہے کہ مجنوں لیلیٰ کے عشق کے جنون میں مبتلا ہوکر دشت میں بھٹکتا رہتا تھا اور اس کی زندگی سعی لاحاصل تھی۔ اقبال نے جناح صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے یعنی لیگ کو جو دوبارہ زندہ کرنے کا عزم کیا ہے اسے ختم کردیں۔
چوتھے شعر میں علامہ اقبال نے آغا خان اور جناح صاحب پر شدید طنز کرتے ہوئے ذومعنی بات کی ہے۔ اقبال جناح صاحب کو اپنے مرکز سے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ہیں اور جناح صاحب کو محمد علی باب جبکہ آغا خان کو ان کے مسلک کے امام سے تشبیہ دی ہے محمد علی باب ایران کے اسماعیلی فرقے کی ایک ذیلی شاخ کا مبلغ تھا اور اس نے دعویٰ مہدویت کیا تھا۔ جسے بعدازاں شاہ ایران ناصر الدین قاچار کے حکم سے تبریز شہر کے چوراہے میں گولی مار کر اس کی نعش شہر سے باہر پھینک دی گئی تھی۔ اس کے پیروکار بابی کہلاتے ہیں۔
پانچویں شعر کا پہلا مصرعہ عربی زبان جبکہ باقی شعر فارسی زبان میں ہے جس کا صیحح مفہوم کوئی عربی و فارسی پر عبور رکھنے والا شخص ہی سمجھا سکتا ہے مگر اس کے الفاظ کے معنی کچھ یوں ہیں۔
‘بشریٰ لکم’ کا لفظ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 126 سے لیا گیا ہے۔ آیت ترجمہ یہ ہے
“اور اس مدد کو اللہ نے تمھارے لیے (ذریعہٴ) بشارت بنایا یعنی اس لیے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ورنہ مدد تو خدا ہی کی ہے جو غالب (اور) حکمت والا ہے”
جبکہ منتظر مارسیدہ ہست کے معنی “ہمارا منتظر پہنچا ہے” کے ہیں۔
حجابِ کے معنی پردے کے ہیں, جبکہ غیرتِ کبری ٰکے معنی بڑی غیرت اور دریدہ ہست کے لفظی معنی پھٹ گیا ہے کے ہیں۔
نظم “صدائے لیگ” کا پس منظر:
ان اشعار کو سمجھنے کے لئے اس کا پس منظر سمجھنا بہت ضروری ہے۔ 2 دسمبر 1920 کو انڈین نیشنل کانگریس کا سالانہ اجلاس ناگپور میں وجے رگھو اچاریہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ یہ وہ تاریخی اجلاس تھا جس میں گاندھی جی کے برطانوی راج سے عدم تعاون کی قرارداد منظور ہوئی۔ اس قرارداد کی مخالفت محمد علی جناح نے کی تو کارکنوں کی جانب سے ان پر تنقید اور ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی جبکہ کچھ کانگریسیوں نے شیم شیم کے نعرے بھی لگائے ۔ چنانچہ جناح صاحب اسی وقت کانگریس سے نکل گئے۔۔
اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مسلم لیگ حالت نزاع میں تھی اور خلافت کمیٹی پورے ہندوستان اور خصوصاً اسلامیان ہند کی نمائندگی کر رہی تھی۔ چنانچہ جناح صاحب لندن چلے گئے اور سات آٹھ مہینے وہاں گزار کر اکتوبر 1921 کو بمبئی واپس آئے اور مسلم لیگ کو ایک بار پھر فعال کرنے کا اعلان کردیا۔۔۔ اس اعلان پر ڈاکٹر اقبال بہت برہم ہوئے غالباً اس وجہ سے کہ اس وقت ہندو اور مسلمان یک جان ہوکر کانگریس اور خلافت کمیٹی کے پلیٹ فارم سے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر اقبال نے جناح صاحب کی کاوش کو مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی سازش سمجھا اور اس کے ردِعمل میں جناح صاحب کے خلاف ایک تنقیدی قطع لکھ دیا۔۔جو “صدائے لیگ” کے عنوان سے 9 نومبر 1921 کو روزنامہ زمیندار میں شائع ہوا اور بہت سے لوگوں کا وردِ زباں رہا۔
بعدازاں یہ اشعار علامہ اقبال نے ترک کردیے اور اسے اپنے کلام میں شامل نہ کیا جس کے محرک حکیم فضل الرحمن سواتی تھے اور انہوں نے اس کی تفصیل اپنے مضمون “ترجمان حقیقت اقبال ” میں لکھی ہے۔ حکیم صاحب لکھتے ہیں۔۔
” یہ قطعہ جب شائع ہوا تو میں نے علامہ اقبال کو لکھا کہ یہ قطعہ تو بہت اچھا ہے مگر اس پر جناح صاحب پر بہت سخت تنقید کی گئی ہے ،غیر مناسب ہے۔ اگرچہ آپ کی طرح میں بھی جناح کا مخالف ہوں مگر انہوں نے 1918 میں جو اہم کام انجام دیا تھا اس اکا اثر میرے دل و دماغ میں بہت زیادہ ہے۔ جا وقت وزیر ہند لارڈ مانٹیگو ہندوستان کے دورے پر آئے اور اپنی سفارشات میں ہند کہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اس کے لئے مزید اصلاحات کی سفارش کی جس کی تائید تمام صوبہ جات کے گورنروں نے بھی کی مگر بمبئی کے گورنر لارڈ ولنگٹن نے اس کی خوب مخالفت کی اور ہندوستانیوں کے بارے میں ہتک آمیز باتیں کی۔۔ جس کے خلاف صرف محمد علی جناح نے احتجاج کیا اور جرات و بیباکی کا ثبوت دیتے ہوئے لاررڈ ولنگٹن کو دشمن ہند کے نام سے پکارا اور مطالبہ کیا کہ انہیں تبدیل کردیا جائے۔۔
یہ جناح صاحب ہی تھے جو اس وقت بھی لارڈ ولنگٹن کےخلاف کھڑے ہوئے جب وہ الوداعی دعوت میں شریک تھا تو جناح صاحب اور ان کی زوجہ نے گورنز بمبئی کا استقبال کالی جھنڈیوں سے کیا۔ اس وقت کسی غیر قوم میں یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کرے۔ لہذا میں آپ کی خدمت میں باادب التماس کرتا ہوں کہ ازراہ کرم اس قطعے کو اپنے مجموعہ کلام سے خارج کردیجیے گا۔”
اس خط کے جواب میں علامہ اقبال نے حکیم فضل الرحمن سواتی کو جوابی خط لکھا اور اقرار کیا کہ انہوں نے جوش میں چند تنقیدی اشعار لکھ دیے تھے لیکن آپ کے خط نے میرے جوش کو فرو کردیا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے متنبہ کیا۔۔ اس بارے میں لکھنے والے آپ فرد واحد ہی ہیں آپ کے سوا کسی نے نہ مجھے لکھا اور نہ ہی زبانی کچھ کہا۔ اطمینان رکھیے کہ میں نے ان اشعار کو آپ ہی کے کہنے سے اپنے مجموعہ اشعار سے خارج کردیا ہے۔
(ماہنامہ برہان دہلی اگست 1964)
ان اشعار کو دوبارہ منظر عام پر لانے کا مقصد ان کی ترویج نہیں ،نہ کوئی نئی بحث چھیڑنا ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ بنا کہ اس بارے میں بزرگوں سے بہت کچھ سن رکھا تھا اور اسی لئے بطور ایک طالب علم ان اشعار کی ایک عرصے سے تلاش تھی۔ پھر جس وقت یہ اشعار ڈاکٹر صابر کلورُی کی کتاب ’کلیات باقیات شعر اقبال متروک اردو کلام‘ میں بھی نہ ملے (دور دوئم 1924۔ 1909 مکمل متروکہ نظموں میں کہیں یہ نظم نہیں ملی ) تو اس کی حقیقت جاننے کا اشتیاق اور بھی بڑھ گیا۔ جب مسلسل تگ و دو کے بعد یہ اشعار مل گئے تو دوست احباب اس کا شدت سے تقاضا کرنے لگے۔ اس تحریر کا موجب بھی یہی بات بنی کہ اشعار کے ساتھ ان کا مکمل پس منظر اور حقائق لکھے جائیں تاکہ یہ کسی فتنے کا سبب نہ بنے۔۔
بشکریہ:
اقبال کا نظریہ قوم و ملت اور خطوط علامہ طالوت
ناشر مسلم پریس لائلپور۔
کاروان احرار از مولف جانباز مرزا۔
اقبال کا متنازعہ کلام ناشر مکتبہ الحجاز لاہور
ماہنامہ برہان دہلی۔
کلیات باقیات شعر اقبال (متروک اردو کلام) مرتبہ ڈاکٹر صابر کلورُوی۔
تحقیق
مخدوم عدیل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply