اپنی تاریخ دہرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔۔۔محمد احمد

آج ہر طرف مسلمانوں کا خون ناحق بہہ رہا ہے،کشمیر ،فلسطین،شام ،یمن، عراق اور لیبیا کی دھرتی خون سے رنگین ہے۔اس خونی ہولی میں غیر تو غیر اپنوں کا کردار بھی کسی سے کم نہیں۔دوسری طرف مسلم اُمہ کی معاشی بدحالی نے رہی سہی قوت وطاقت نیست ونابود کردی ہے۔آپس کے اختلافات نے مسلمانوں کی وحدت، اتحاد واتفاق کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔سارے مسلم ممالک منتشر اور انکی طاقت تقسیم ہے۔کوئی ملک امریکہ  کی آشیرباد پر جی رہا ہے تو کوئی روس کی خوش آمد کرکے آخری سانس لے رہا ہے۔

مسلمانوں کی آج جتنی عددی اکثریت ہے اور جنتے معاشی وسائل مسلم ممالک کے پاس موجود ہیں۔ماضی میں اسکی مثال نہیں۔
ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان دنیا میں بستے ہیں،ساری معاشی گزرگاہیں اور راستے مسلم دنیا کے پاس ہیں۔آبنائے فاسفورس اور ابنائے ہرمز سمیت سارے معاشی راستے ہماری ملکیت ہیں۔معدنیات ،تیل کے ذخائر مسلمانوں کے پاس ہیں۔
بس فقدان ہے تو دوراندیش ،باصلاحیت دینی غیرت وحمیت سے سرشار قیادت کا فقدان ہے۔
قیادت کی کمی نے مسلمانوں کو مظلوم بنادیا اور دنیا نے ظلم وجبر کا نشانہ بنایا جب عالمی استعمار نے دیکھا مسلمان قیادت سے محروم ہیں تو انہوں نے بڑی دلیری، جرئت اور بیباکی کے ساتھ مظالم ڈھائے۔کیونکہ ان کو معلوم تھا ان کا آپس میں اتحاد واتفاق نہیں اور اپنا مضبوط پلیٹ  فارم نہیں،یہ انصاف کی بھیک مانگنے کے لیے  ہمارے پاس آئیں گے۔دنیا کا ستم دیکھیں قاتل اور ظالم منصف اعلی ٹھہرے،ہم وحشی قاتلوں سے انصاف مانگتے ہیں۔ اور ناکامیوں کو چھوڑ دیجیے بس کشمیر اور فلسطین کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔۔
کشمیر اور فلسطین کے نہتے مسلمان اپنے مسلم بھائیوں کی امداد اور مدد ونصرت کے انتظار میں ہوتے ہیں۔کب یہ ہماری مدد کو پہنچتے ہیں،اب وہ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں اور مسلمانوں سے ناامید اور مایوس ہوگئے ہیں۔

مسلمانوں کا رشتہ اخوت کتنا مضبوط اور گہرا رشتہ ہے۔دنیا اسکی نظیر پیش کرنے سے عاجز تھی،آج مادیت نے اس روحانی رشتہ کو ٹھیس پہنچائی ہے۔مسلمان بے حس اور کمزور ہوچکے ہیں۔کشمیر اور فلسطین کے دردناک، کربناک اور اندوہناک مناظر دیکھ کر انکی غیرت نہیں جاگتی اور انکا ضمیر بیدار نہیں ہوتا۔کشمیر کے حوالے سے حالیہ بھارتی اقدام پر کسی مسلم ممالک کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگی، مسلم حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔یہ حوالے دینے کی زحمت مت کیجئے گا فلاں ملک نے مذمتی قرارداد منظوری کرلی اور فلاں حکمران نے کشمیر وفلسطین کے حق میں بیان دیا ہے-ستر سالوں سے ان قراردادوں اور مذمتی بیانات سے کیا ہوا ہے؟ہمیں بتایا جائے آپ نے ان نہتے کشمیری وفلسطینی بھائیوں کی امداد کے لیے کونسے عملی اقدامات کیے ہیں؟مسلم حکمرانوں نے اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر کب کشمیر وفلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا ہے؟کشمیر وفلسطین تمہاری کبھی اولین ترجیح رہا ہی نہیں کیونکہ تمہارا ضمیر مرچکا ہے۔تم مفادات کے پوجاری ہو آپ جیسے حکمرانوں سے یہ توقعات رکھنا فضول اور بے جا ہیں۔قوم اب صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔اس دور میں ہمارے مظلوم کشمیری اور فلسطینی بھائی غلامی کی بدترین زندگی بسر کررہے ہیں،ان سے بزور شمشیر آزادی کی نعمت اور حق خودارادیت چھین لیا گیا ہے۔روز مرہ کی زندگی میں ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔انکی زندگیاں،تعلیم وصحت سب کجھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔آپ اور ہم چونکہ آزادی کی فضاء میں جی رہے ہیں اس وجہ سے ہمیں ان کے دکھ درد و الم کا اندازہ نہیں۔سب سے بڑی بات مسلم اخوت کا رشتہ ختم ہوچکا ہے،ورنہ حدیث شریف میں پوری امت کو ایک جسد سے تعبیر کیا گیا ہے،جس طرح جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتے ہے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے،اس طرح اس امت مسلمہ کے ایک فرد کو تکلیف ہو تو سب کو تڑپنا چاہیے۔لیکن یہ درد اب کہاں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب بھی وقت ہے مسلمان حکمران بے غیرتی کی چادر ہٹالیں اور ہر عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اور فلسطین کو اجاگر کریں۔انڈیا اور اسرائیل کی درندگی کو پوری دنیا کے سامنے واضح کرے،یہ وحشی درندے کس طرح انسانیت کا قتل عام کررہے ہیں۔اور مسلم امہ کی ترجمانی کے لیئے توانا، مؤثر اور مضبوط فورم تشکیل دینا چاہیے۔او آئی سی سے سب مایوس ہوچکے ہیں اب یہ تنظیم اپنا وجود کھوچکی ہے۔
اس کے اجلاسوں  سے بجائے ڈھارس بندھنے کے ،ناامیدی پھیلنے لگی ہے،ساتھ میں مذاق اڑانا جانے لگا ہے کہ مسلمان اس مردہ گھوڑے کے آسرے ہیں۔ہر ایک فرد کی ذمہ داری ہے وہ بے سہارا مظلوم مسلمانوں کی جتنی مدد کرسکتا ہے کرڈالے کسی دوسرے کے انتظار میں نہ بیٹھے،اگر عوام وحکام نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کفر کو للکارا تو خدا کی قسم کفر میں اتنی طاقت اور برداشت نہیں جو اس للکار اور یلغار کا سامنا کرسکے،تاریخ گواہ ہے مسلمان ہر میدان میں فاتح ٹھہرے ہیں۔
آئیے۔۔ایک بار پھر ہم اپنی تاریخ دہرائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply