بھارتی میڈیا یا ہندو توائی راکھشس ؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

کیا واقعی انڈیا فرانس کے ملعون صدر میکرون کے ساتھ ہے ۔ ؟یقیناً نہیں ، بلکہ ہرگز نہیں ۔ مہذب انسانوں کا اجتماعی شعور ایسی غلاظت کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا ،خواہ انکا تعلق کسی خطے اور کسی بھی مذہب سے ہو ۔۔۔ لیکن یہ بھارتی چینل شب وروز اسی غلاظت کا پروپیگنڈہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

سامنے کی صورتحال یہ ہے کہ انڈیا کے سبھی معروف چینل آر ایس ایس کے غلام یعنی مودی کھل نائیک سرکار کے پھاٹک پہ بیٹھے دم ہلاتے کتے بن چکے ہیں لیکن ان میں آپس میں بھی اسلام دشمنی کا ایک مقابلہ جاری ہے جو زیادہ تگڑے انداز میں مسلمانوں پہ مسلسل بھونکنے کا مقابلہ ہے تاکہ انہیں چاٹنے کو مہاسبھائی راتب زیادہ بڑی مقدار میں ملےاور اسکے لئے وہ اپنے اینکروں کو بڑی سے بڑی ہڈیاں ڈالتے جارہے ہیں اس مقابلے میں ریپبلک ٹی وی کافی آگے نکل چکا ہے کہ جس کا ہندو تؤائی اینکر ارناب گوسوامی ہندو ہمیشہ ہی نہایت زہریلا اور جنونی لب و لہجہ اختیار کرتا ہے اور بلند آواز میں چیخ چیخ کر ہذیانی انداز اپناکے سب کو ڈرانے کی کوششیں ‌کرتا ہے اوراس کا وصف خاص  کر مخالف کی تذیل کرنا اوربہت بیشرمی سے ہرممکن طریقے سے اسلام کو دہشتگردی کی بنیاد قرار دینا ہے ۔ اس مقصد کے لئے اس کا نشانہ خصوصی طور پہ بھارتی مسلمان بنائے جاتے ہیں۔

اور صرف ایک ارناب ہی نہیں زیادہ تر بھارتی اینکر صرف اسی بیانئے کے ساتھ مستعدی سے کھڑے ملتے ہیں کہ جو اسلام دشمنی پہ مبنی ہوتا ہے یا خصوصاً بھارتی مسلمانوں کےمعاملات میں منفی تاثر کا حامل ہوتا ہے جبکہ وہ بخوبی واقف بھی ہیں کہ بھارت میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں کہ جنکی تعداد 20 فیصد کے لگ بھگ ہے مگر یہ بھارتی چینل انکی دلجوئی کرنا تو کجا مسلسل انکے زخموں پہ نمک چھڑکنے میں جتے رہتے ہیں ۔ اورابھی فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے سلگتے موضوع پہ بھی ان چینلوں نے یہی طرز عمل اپنانے کو ترجیح دی اور اپنا خاص طرز عمل اپنایا-۔۔ارناب گوسوامی ، سدھیر چوہدری اور شویتا جیسے کئی  دیگر اینکروں کا طریقہء واردات یہ ہے کہ کسی متنازع موضوع پہ مباحثے کے نام پہ وہ مختلف طبقات فکر کے لوگوں کو بلاتے ہیں اور پھر خود آگے بڑھ کے جنونی فریق بن جاتے ہیں اور خوب شور مچاتے ہیں ۔اس دورن ساؤنڈ سسٹم کو اس طرح برتا جاتا ہے کہ اگر کسی اختلافی نکتے پہ کوئی سے دو افراد آپس میں بھڑ جائیں تو اپنے من پسند فرد کی آواز کو اس حد تک زیادہ اور مخالف کی آواز کو اس حد تک پست رکھا جائے کہ تائیدی آواز غالب رہے اور نسبتاً آسانی سے سنی جاسکے اور مخالف کی دلیل تو کیا آواز ہی آسانی سے قابل فہم نہ ہوسکے ۔۔۔ البتہ جب وہ اینکر اس مخالف فرد سے خود بات کرے تو آوازوں کا لیول کافی حد تک یکساں کردیا جائے تاکہ اسکی واردات نہ پکڑی جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ سنگھی چینلوں کی ایک کوشش یہ بھی رہتی ہے کہ بھارتی مسلمانوں میں سے زیادہ تر نہایت کمزور علمیت والوں اور خوداعتمادی سے محروم یا خوشامدی فطرت لوگوں کو عالم بناکے پیش کیا جائے جو کہ جعلی مقابلے میں آسانی سے ہرائے جاسکیں اور یوں معاذاللہ اسلام اور بھارتی مسلمانوں کی دھجیاں آسانی سے اڑائی جاسکیں اور ساؤنڈ سسٹم کی مدد لئے بغیر بھی جعلی فتوحات کا یہ گھناؤنا کھیل جاری رکھا جاسکے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کا اکثریتی غیرمسلم پڑھا لکھا طبقہ ان زہریلے ناگوں کے پھن کچلنے کی بجائے انکی گھناؤنی سوچ کا اثر قبول کرتا دکھائی دیتا ہے جس کا اثرانتخابی نتیجوں سے جھلکتا صاف دکھائی دیتا ہے ۔۔۔ یہ سوچ جب انتخابی قؤت بن جاتی ہے تو پھر اقتدار پاکر ایک وحشت میں بدل جاتی ہے اور اتحاد اور  امن کی سب علامتوں کو نگل جاتی ہے۔ یہی کچھ آج کے بھارت میں ہورہا ہے ۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔ ہم بھارت کے آپسی معاملات میں بولنے کا حق نہیں رکھتے اور نہ ہی بولنا چاہتے ہیں، لیکن وہاں ایک دوسرے کی رائے کی برداشت پیدا کرنے کی قؤت رکھنے والے معاشرے کو کمزور پڑتے دیکھ کر یقیناً بہت رنجیدہ ہوتے ہیں کیونکہ دلیل اور برداشت ہی تو ہر ایسے معاشرے کا حسن ہے کہ جو خود کو جمہوری کہلانے پہ مصر ہو ناکہ ایک درجہ آگے بڑھ کے مہذب کہلانے کی توقع بھی رکھتا ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply