• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امریکی صدارتی انتخاب اور بڑھتے خدشات(سوئم،آخری حصّہ)۔۔جمال خان

امریکی صدارتی انتخاب اور بڑھتے خدشات(سوئم،آخری حصّہ)۔۔جمال خان

امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے پہلے دو حصوں میں ہم نے ان عوامل کا جائزہ لیا تھا کہ کیسے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام تر عوامی جائزوں سیاسی پنڈتوں اور طاقتور میڈیا کی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اگلے چار سال کے لئے وائٹ ہاؤس کو اپنا مسکن بنایا تھا ۔اب جب کہ انتخاب کے انعقاد میں صرف چار ہی دن باقی رہ گئے، آخری حصے میں ہم آپ کے سامنے ایک واضح تصویر پیش کریں گے کہ اگلے چار سال کے لئے کون سا امیدوار وائٹ ہاؤس میں ڈیرے جمائے گا.
“جو بائیڈن کیوں زیادہ ” فیورٹ” ہیں ۔

1: 2016 کے صدارتی انتخاب اور ماہ اکتوبر میں کئے گئے تمام تر انتخابی جائزوں میں ہیلری کلنٹن کی اپنے حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بمشکل ایک فیصد کی برتری رہ گئی تھی اور ہیلری کلنٹن کی اس برتری کے ایک دم اچانک ہی اتنا نیچے آنے کی بڑی وجہ آخری دس دنوں میں ایف بی آئی کی جانب سے ان کی پرائیویٹ ای میلز سرور کا سیکنڈل امریکی عوام کے سامنے لانا تھا ۔
جبکہ آج انتخاب سے صرف چار دن قبل جو بائیڈن کی برتری 8 فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ان سطور کی اشاعت تک ری پبلکنز کی جانب سے ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی  کرپشن کا بھی کوئی واضح ثبوت ابھی تک امریکی عوام کے سامنے نہیں  آیا ہے ۔اور جو بائیڈن کی برتری ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں اتنی زیادہ ہے کہ تمام سیاسی پنڈت سروے ڈیموکریٹس اور میڈیا ان کی ممکنہ فتح کا اعلان کر رہے ہیں ۔

دوسری طرف ” فیصلہ کن سونگز سٹیٹس” میں ایک دو کو چھوڑ کر باقی تمام میں جو بائڈن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نہ صرف 2 پوائنٹ سے لیکر 7 پوائنٹ تک کی سبقت لئے  ہوئے ہیں بلکہ یہ سبقت ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں دو سے تین گنا زیادہ ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اتنی بڑی سبقت کو آخری موقع پر صدر ٹرمپ کے لئے کم کرنا کسی معجزے ” یا ” آسمانی اور غیبی طاقتوں” کی مدد کے بغیر اب ناممکنات میں سے لگ رہا ہے ۔

2: صدر جو بائیڈن نے کرونا وائرس کے بحران کے دوران نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے تمام حفاظتی اقدامات کئے اور لوگوں کو بھی مسلسل اس کی تلقین کی بلکہ خود کو بھی امریکی عوام کے سامنے بطور صدارتی امیدوار ایک ایسے ” کمانڈر ان چیف” کے طور پر پیش کیا جو اس طرح کے بحرانوں میں اپنے عوام کے ساتھ ان کے دکھ درد ان کی تکالیف میں شانہ بشانہ کھڑا  ہے جو ان کے احساسات کا مکمل ادراک رکھتا ہے ۔۔

دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس انتہائی نازک موقع پر بھی امریکی عوام کو “فرنٹ” سے “لیڈ” کرنے میں نہ صرف بری طرح ناکام ہوئے بلکہ اپنی جذباتی طبیعت اور ” منہ پھٹ” ہونے کی وجہ سے اس آفت کے آنے پر پہلے دن سے ہی سائنس اور میڈیکل کو مکمل رد کرتے رہے بلکہ دو دن پہلے تک جب اس موذی مرض سے سوا دولاکھ سے بھی زائد امریکی ہلاک ہوچکے ہیں انہوں نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے بیان دے دیا کہ کرونا وائرس کے زیادہ ٹیسٹ کرنے اور اتنے ہی زیادہ مثبت کیسز سامنے لانے کی واحد وجہ ان کے خلاف ان ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی کھلی سازش ہے جن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے اور وہ امریکی عوام میں ان کے خلاف جذبات کو بھڑکا رہے ہیں ۔ انہوں نے ایک انتخابی جلسے میں چیختے ہوئے کہا ” کرونا ٹیسٹ کی تعداد کو فوراً کم کیا جائے ۔ اس طرح کے بیانات سے نہ صرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خود بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے بلکہ ری پبلکنز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وہ امیدوار جو رکن کانگریس اور سینٹ کی سیٹوں کے امیدوار ہیں ان کی جیت بھی خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ سینٹ میں بھی ڈیموکریٹس کو واضح  برتری حاصل ہونے سے ہر طرح کی قانون سازی کے لئے ان کی راہ میں حائل تمام تر رکاوٹیں بھی دور ہوتی جائیں گی اور اس کا مثبت نتیجہ 2024 میں بھی ڈیموکریٹس کی کامیابی کی صورت میں ہوسکتا ہے، جب وہ عوام میں اس نعرے کے ساتھ دوبارہ جائیں گے کہ انہوں نے نہ صرف اپنے تمام انتخابی وعدے پورے کئے ہیں بلکہ امریکہ کو بھی پہلے کی طرح اندرونی اور بیرونی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلوا دیا ہے ۔
“کیا صدر ٹرمپ آخری لمحے میں بازی پلٹ سکتے ہیں ؟”

اگر اوپر بیان کی گئی تمام تر صورتحال کا پھر سے بغور جائزہ لیں تو اس کے امکانات آج کی تاریخ تک تو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اور پھر صدر ٹرمپ اور ری پبلکنز پارٹی کے لئے مزید پریشانی اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ان ہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وہ سیاسی پنڈت جنہوں نے 2016 میں ان کی کامیابی کی درست پیش گوئیاں کی تھیں ۔۔ اس دفعہ وہ بھی ” سوری سر ناٹ دس ٹائم ” کہہ کر ایک جانب ہوگئے ہیں اور مرے کو سو دھرے ان کے اپنے نیوز چینل ” فوکس نیوز” بھی ابھی تک تمام تر کوششوں کے باوجود جو بائیڈن کی واضح برتری کو کم کرکے دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے ۔۔
” ٹرمپ کے لئے”کوئی آخری امید “۔

1: ایک ایسا نقطہ بھی ہے جو ٹرمپ اور ری پبلکنز کے لئے” کچھ” گنجائش اور ہلکی سی امید لئے ہوئے ہے اور وہی نقطہ ہے ۔۔ڈیمو کریٹس کے لئے بہت “بڑی پریشانی” اور وہ ہے سونگز سٹیٹس کے وہ لاکھوں ووٹرز جنہوں نے ابھی تک کسی بھی سروے کا جواب نہیں دیا کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دیں گے اور جنہوں نے آخری دن کے لئے ” اپنے پتے” سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں ۔( اس سے کچھ ملتی جلتی صورتحال 2016 میں بھی تھی)

2: اگر ری پبلکنز بالکل آخری لمحے میں ہنٹز بائڈن کی ای میلز سمیت جو بائڈن کے بطور نائب صدر اختیارات کے ناجائز استعمال اور خاندان کو مالی فائدہ پہنچانے جیسا کوئی بڑا سیکنڈل ڈھونڈ کر نکال لاتے ہیں ( جس کے لئے وہ ہر حد تک جاسکتے ہیں )تو شاید  اوپر جن ووٹرز اور ان کے”خفیہ پتوں” کا ذکر ہوا ہے وہ آخری لمحات میں ٹرمپ کی حمایت کا فیصلہ کر ڈالیں ۔

3: ری پبلکنز پچھلے دو ہفتوں سے جو بائیڈن کی بڑھتی ہوئی عمر، انہیں بھولنے کی بیماری اور میڈیکلی ان فٹ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ وہ امریکی عوام کو یہ کہہ کر بھی خوف زدہ کر رہے ہیں کہ اگر جو بائڈن کو بطور صدر کچھ ہوجاتا ہے تو کیا وہ کاملہ ہیرس کو ایک عورت ہونے کے ناطے بطور کمانڈر-ان- چیف اور صدر قبول کر پائیں گے ؟؟

قارئین! تمام تر جائزوں کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ڈیموکریٹس نے 2016 کی اپ سیٹ شکست کے بعد کرونا وائرس بحران کے باوجود اس دفعہ نہ صرف امریکی تاریخ کی چند مضبوط ترین انتخابی مہمات  میں سے ایک مہم چلائی ہے ( جس کا نتیجہ تقریباً 7 کروڑ ووٹرز کا تین نومبر سے پہلے ہی ووٹ ڈال دینا ہے جو کہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کا 50 فیصد بنتا ہے ) بلکہ اس صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی سے کئی گناہ زیادہ انتخابی فنڈز اکٹھے کر نے کے ساتھ ساتھ ” جو بائڈن ” کو کرونا وائرس اور بدترین اقتصادی بحران میں امریکیوں کا ” حقیقی کمانڈر ان چیف”  پیش کرنے میں بھی مکمل کامیاب رہے ہیں  جبکہ دوسری طرف صدر ٹرمپ اپنی زندگی میں حاصل کئے گئے سب سے بڑے مقام کی نہ صرف لاج رکھ سکے بلکہ تاریخ میں  پہلی مرتبہ ملکی حالات کو اس مقام پر لے آئے جب ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو بھی بیرونی خطرے سے زیادہ اندرونی خطرے کے بارے میں میٹگز کرنا پڑیں۔

تحریر کا اختتام ریاست مشی گن کی ایک ری پبلکن خاتون کارکن کے اس جملے سے کروں گا کہ جب کرونا  بحران کی وجہ سے اس کا سب کچھ برباد ہوگیا تو ایک صحافی کو انہوں نے کہا ۔۔” میں جو بائڈن کو امریکی عوام کے لئے ” انسانی احساسات اور جذبات کا صدر” کہتی ہو جبکہ صدر ٹرمپ کو میں ” معاشی اور اقتصادی صدر “کہوں گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لگتا ہے تین نومبر کو کرونا وائرس کی تباہی سے سوا دو لاکھ سے زائد امریکی اموات کے بعد  امریکی عوام اس دفعہ فیصلہ ” احساسات اور جذبات ” رکھنے والے کے حق  میں کریں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply